لکھاری پاکستان میں یورپی یونین کے سفیر ہیں۔
لکھاری پاکستان میں یورپی یونین کے سفیر ہیں۔

گزشتہ چند دہائیوں میں پاکستان اور یورپی یونین مل کر اپنے دو طرفہ تعلقات میں مضبوطی اور گہرائی لائے ہیں۔ یہ شراکت داری ان شعبوں پر مشتمل ہے جن میں ہمارا باہمی تعاون جاری ہے۔

اس میں بلاشبہ تجارت شامل ہے اور ہمیں پاکستان سے بلند توقعات وابستہ ہیں کہ وہ اپنے تمام شہریوں کے فائدے کے لیے ہماری جانب سے ترجیحی حیثیت (جی ایس پی پلس) کے معاہدے کو استعمال کرے گا۔

اس کے علاوہ ہم نے 2020-2014 کے عرصے کے دوران پاکستان کے لیے 653 ملین یورو بھی مختص کیے ہیں تاکہ تعلیم، دیہی ترقی اور گورننس کے شعبوں میں ترقی اور اصلاحات لائی جاسکیں۔

تجارت اور ترقی کے شعبوں میں تعاون ہی وہ ستون ہیں جن کے ذریعے پاکستان اور یورپی یونین نے ایک دوسرے کے بارے میں جانا اور اس شراکت داری کو قائم کیا ہے۔

مگر یہ سوچنا درست نہیں ہوگا کہ یورپی یونین کا مینڈیٹ صرف انہی دو شعبوں کے گرد گھومتا ہے۔ یورپی یونین کوئی تجارتی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی بڑا ترقیاتی ادارہ ہے۔ یورپی یونین کے پاس اپنی خارجہ پالیسی چلانے کے لیے ایسے وسیع تر ذرائع ہیں جن کا رخ اور وسعت یورپی یونین کی تمام رُکن اقوام مل کر کرتی ہیں۔

پڑھیے: یورپی یونین سے علیحدگی:’پاکستان سے تعلقات پر اثر نہیں پڑے گا‘

تجارتی پالیسی، ترقیاتی تعاون اور انسانی امداد کے علاوہ یورپی یونین سلامتی اور دفاع کے شعبوں میں بھی خاصی سرگرمِ عمل ہے۔ 2003ء سے مشترکہ سیکیورٹی اور دفاعی پالیسی کے تحت یورپی یونین بین الاقوامی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے امن مشنز اور تنازعات کی روک تھام میں قائدانہ کردار ادا کر رہی ہے۔

اقتصادی انضمام کا یورپی یونین کا ماڈل بھی ان آپریشنل سرگرمیوں کی مدد کے لیے ایک منفرد موقع ہے۔ رکن ریاستیں دفاع کے شعبے میں مستقبل کی ٹیکنالوجیز پر مشترکہ طور پر تحقیق کر سکتی ہیں اور اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتی ہیں۔

یورپی یونین کو بحران سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے اداروں سے بھی کافی فائدہ ہوتا ہے جس میں ملٹری آپریشنز کی منصوبہ بندی اور انہیں عمل میں لانے کے لیے یورپی یونین ملٹری اسٹاف، اور تمام ممالک کے فوجی سربراہان پر مشتمل یورپی یونین ملٹری کمیٹی شامل ہیں، جو کہ فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی ہے۔

یہ تمام ادارے یورپ کے سویلین حکام کے سیاسی کنٹرول میں ہیں۔ ہم پاکستان، اس کی حکومت اور اس کے شہریوں کو یورپی یونین کی امن اور استحکام کی سرگرمیوں کی اس مخصوص جہت سے روشناس کروانا چاہتے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات اور مشترکہ تجربات کے ذریعے ہی امن اور استحکام قائم ہو سکتا ہے۔

اس وقت یورپی یونین کے تمام 28 رکن ممالک سے تقریباً 2600 سویلین اور 4000 ملٹری اسٹاف دنیا بھر میں 6 ملٹری آپریشنز اور 11 سویلین مشنز میں تعینات ہیں۔ ایسی آپریشنل تعیناتیوں کا مینڈیٹ کافی وسیع ہوتا ہے، یعنی امدادی کام، تنازعات کی روک تھام اور امن کا قیام، ہتھیار تلف کرنے کے آپریشن، فوجی مشورے اور معاونت، اور تنازعے کے بعد استحکام کا قیام شامل ہے۔

یورپی یونین کسی معاملے میں کتنا کردار ادا کرے گی، اس کا براہِ راست تعلق اس کے سیکیورٹی فراہم کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے کا کردار ادا کرنے کے عزم سے ہے، تاکہ فوری ایکشن کیا جائے، اور مشکل حالات میں کسی تنازعے یا بحران کو روکا جاسکے یا ختم کیا جاسکے۔ یہ اس ملک کی درخواست پر کیا جاتا ہے جس کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی قانونی روشنی میں مدد فراہم کی جا رہی ہوتی ہے۔

پڑھیے: یورپی یونین کیلیے امن کا نوبل انعام

ہمارے فوجی اور سویلین اثاثوں کی زمینی اور بحری تعیناتیاں ان ممالک میں ہوتی ہیں جو ہمارے پڑوس میں واقع ہیں، مثلاً کوسوو، بوسنیا ہرزیگوینا، مولدووا، یوکرائن، جارجیا، اور بحرِ روم میں، یا پھر دور فلسطینی علاقوں، مالی، نائجر، لیبیا، جمہوریہ وسط افریقا، عراق، اور صومالیہ کے ساحلوں میں اور اس سے باہر تک بھی ہوتی ہیں۔

ماضی کی سرگرمیوں نے دوسرے فوائد کے ساتھ ساتھ افغان نیشنل پولیس کی صلاحیت میں اضافے، انڈونیشیا کو آچے میں امن مرحلے کی نگرانی میں مدد، چاڈ کو اپنے شہریوں کی حفاظت اور امداد کی فراہمی، گنی بساؤ میں سیکیورٹی کے شعبے میں اصلاحات لانے، اور کانگو اور سوڈان میں اقوامِ متحدہ کے آپریشنز کی حفاظت میں مدد دی ہے۔

یورپی یونین کے پرچم تلے ہماری افواج تنازعات سے ابھرنے والے ممالک کی مدد کرتی ہیں تاکہ طویل مدتی استحکام کے قیام اور خوشحالی واپس لانے کی ان کی صلاحیت میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ ہماری افواج ان بنیادی خطرات پر بھی توجہ دیتی ہیں جو یورپی یونین اور اس کے شہریوں کی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مختلف پالیسی آلات، مثلاً امداد، بحرانوں کا حل، ترقیاتی تعاون اور تجارت کو استعمال کرنے کی یورپی یونین کی صلاحیت وہ موقع ہے جس سے کوئی دوسری بین الاقوامی تنظیم فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔

قزاقی کے تدارک کے لیے ہماری آپریشنل سرگرمیاں بھی اس حکمتِ عملی کا مظہر ہیں۔ قرنِ افریقا اور مغربی بحرِ ہند کے قریب مسلح ڈاکے اور قزاقی روکنے کے لیے مختص ہمارے بحری آپریشن کے ساتھ ساتھ یورپی یونین نے صومالی حکومت کی صلاحیت میں اضافہ کرنے اور فوج کی تربیت کرنے کے لیے بھی دو آپریشن تعینات کیے ہیں تاکہ وہ قزاقی کے مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے قابل ہو سکے۔

ملٹری و سول اور طویل مدتی و مختصر مدتی اقدامات کے درمیان یہی وہ توازن ہے جو دنیا بھر میں سیکیورٹی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے یورپی طریقے کو منفرد اور ناقابلِ تردید بناتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 6 فروری 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 18, 2018 05:40pm
یورپی یونین اپنی دی جانے والی امداد اور قرضے کا خیاں رکھیں، یہ غریبوں تک پہنچ رہا ہے یا نہیں۔