ملک بھر میں پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں، اصولی طور پر تو اسے عوام کی حفاظت اور خدمات کے لیے ہونا چاہیے تھا تاہم اس کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کا الزام لگتا رہا ہے، جس میں کافی حد تک حقیقت بھی نظر آتی ہے۔

ہر صوبے کی حکومت اپنے دائرہ اختیار میں پولیس کو اگرچہ مکمل غیر سیاسی قرار دیتی ہے مگر اس فورس کی جانب سے ایسے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں، جو حکمرانوں کے ان دعووں کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور میں افسران بالا اور حکومتی شخصیات کا منظور نظر بننے کی دوڑ پولیس افسران میں بھی ہو رہی ہوتی ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

جب بھی کوئی ’پولیس والا‘ ہرکارہ بن جاتا ہے تو بدلے میں حکمرانوں اور حمایتی افسران سے مراعات کے ساتھ ساتھ من مانی پوسٹنگ تو ملتی ہی ہے، وہ پولیس والا خود کو ہر طرح کی من مانی کے لائسنس کا حامل سمجھنے لگتا ہے، اسی طرح کے کئی افسران جو اپنے ’بڑوں‘ کے کہنے پر ’مقابلوں‘ میں ملزمان (جو اکثر مخالفین بھی ہوتے ہیں) کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں، تو وہ افسر شاہی کے زیادہ لاڈلے ہو جاتے ہیں ۔

’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘

پولیس فورس میں ایسے کئی نام ہیں، جن کو ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کہا جاتا ہے، درحقیقت یہ ’اسپیشلسٹ‘ جعلی مقابلے کرکے اپنا نام بنا رہے ہوتے ہیں، حالیہ دنوں میں تو راؤ انوار کا کیس سامنے آیا ہے، جس نے مبینہ طور سیکڑوں ’انکاؤنٹرز‘ کیے، ان مقابلوں میں بے شمار افراد مارے گئے جبکہ اب عدالت کے حکم پر اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

راؤ انوار واحد کردار نہیں، جو جعلی مقابلے کرکے مشہور ہوا اور پھر اس کی حقیقت کھل کر عوام کے سامنے آ گئی، ایسے درجنوں کردار ہیں مگر اب 11 سال سے مفرور پنجاب سے تعلق رکھنے والے ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ انسپکٹر عابد باکسر کی بیرون ملک گرفتاری کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔

انسپکٹر عابد سے عابد باکسر تک ۔ ۔ ۔

عابد حسین قریشی ولد غلام حسین قریشی پولیس میں کھیلوں کے کوٹے پر بھرتی ہوا، جس کا ابتدائی عہدہ سب انسپکٹر تھا۔

اسپورٹس کے کوٹے پر بھرتی ہونے کی وجہ سے پنجاب پولیس کے اہلکار اسے ’عابد باکسر‘ کہنے لگے۔

انسپکٹر عابد باکسر بھی پولیس فورس جوائن کرنے کے بعد اعلیٰ افسران اور حکومتی شخصیات کا منظور نظر بننے کی کوششوں میں لگ گیا، دو دہائی قبل اس پولیس افسر نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تھا، تو جلد ہی ’انکاؤنٹرز‘ میں ملزمان کو مارنے کی وجہ سے پورے صوبے میں مشہور ہوگیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں عابد باکسر نے صوبائی اعلیٰ سیاسی اور سرکاری شخصیات سے بہت جلد اچھے تعلقات استوار کیے تھے، تعلقات بننے کے ساتھ اسے تھپکی بھی ملی تو عابد باکسر نے پر پرزے نکالنے شروع کیے جبکہ لاہور شہر کے جرائم پیشہ گروہ بھی اس افسر کے رابطوں میں آنے لگے۔

روک ٹوک سے مُبرا

عابد باکسر پر الزام ہے کہ اسے اعلیٰ شخصیات کی سرپرستی حاصل تھی اسی لیے جرائم پیشہ افراد سے مراسم بنانے پر حکومت کی جانب سے بھی روک ٹوک نہیں کی گئی۔

انسپکٹر عابد کے کیے گئے پولیس مقابلوں میں درجنوں افراد مارے گئے، بعد میں ان پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھے تو ان کو جعلی انکاؤنٹرز قرار دیا گیا، جبکہ عابد باکسر نے اپنے بیان میں بھی اعتراف کیا کہ ان کے پولیس مقابلے متنازع تھے، ساتھ ہی یہ الزام بھی عائد کیا کہ یہ مقابلے اعلیٰ صوبائی سیاسی شخصیات کے حکم پر کیے گئے۔

پولیس افسران بتاتے ہیں کہ عابد باکسر نے 6 سال کے دوران کم از کم 65 مقابلے کیے، جن میں درجنوں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

عابد باکسر پر اداکارہ کے تشدد کا مقدمہ

جعلی مقابلوں میں اپنے سرپرستوں کے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ انسپکٹر عابد باکسر نے شوبز انڈسٹری پر بھی اپنی دھاک جمائی، جس کے بعد لاہور کی شوبز انڈسٹری کے کئی بڑے نام عابد باکسر کی دوستوں کی فہرست میں شامل ہوئے۔

لاہور کی معروف اسٹیج ڈانسر نرگس بھی عابد باکسر کے دوستوں میں شامل ہوئی تھیں، ابتداء میں عابد باکسر اور نرگس کے درمیان دوستی تھی، مگر پھر کسی بات پر اختلافات ہوئے تو اس پولیس افسر نے نرگس کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا، حتیٰ کے سر کے بال اور بھنویں تیز دھار آلے سے صاف کردیں، جس کا مقدمہ جوہر ٹائون تھانے میں عابد باکسر اور ساتھیوں کے خلاف 28 مارچ 2002کو درج ہوا۔

نرگس پر تشدد کے بعد عابد باکسر فلم انڈسٹری کے لیے ایک ڈان کی حیثیت اختیار کرگیا اور انڈسٹری میں کوئی بھی عابد باکسر کے خلاف بولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

زمینوں پر قبضے، باکسر کی معاونت

عابد باکسر پر لاہور میں زمینوں اور بنگلوں پر قبضے کے الزامات بھی سامنے آئے، مبینہ طور پر ان سے تعلقات رکھنے والے جرائم پیشہ گروہوں میں لاہور کے مشہور قبضہ گروپ بھی شامل تھے، جن میں ملک احسان گروپ، گوگی بٹ گروپ اور طیفی بٹ گروپ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عابد باکسر کے پاکستان یا بیرون ملک رہائش سمیت دیگر اخراجات یہی گروہ برداشت کرتے تھے۔

انسپکٹر سے مفرور عابد باکسر کا سفر

انسپکٹر عابد باکسر پر قتل، اقدام قتل سمیت کئی مقدمات قائم ہوچکے تھے، مگر حکومت میں اعلیٰ سطح پر تعلقات ہونے کی وجہ سے وہ ہر قانون اور قاعدے سے بالاتر تھا۔

اس بے لگام پولیس افسر کا زوال اس وقت شروع ہوا، جب اس نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر جائیداد پر قبضے کے لیے سابق فوجی کی بیوہ کو قتل کیا۔

برگیڈئیر (ریٹائرڈ ) محمود شریف کی بیوہ نسیم شریف کو قتل اور مقتولہ کی جائیداد پر جعلی دستاویزات کے ذریعے قبضہ کرنے کا الزام عابد باکسر اور ان کے بھائیوں کے خلاف سامنے آیا۔

اس کیس میں 20 جولائی 2011 کو عدالت نے عابد باکسر کے دو سگے بھائیوں علی عباس اور ندیم عباس کو سزائے موت سنائی تھی جبکہ مقدمے میں اغواء اور قتل میں ان کا ساتھ دینے والے نامزد عابد باکسر کو مفرور قرار دیا گیا تھا، جس کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتار جاری ہوئے تھے۔

عابد باکسر پر قتل کا ایک اور مقدمہ نمبر 658 تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کیا گیا، جس میں سینما منیجر کو قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔

سینما مالک کے بیٹے سید اقبال کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں مدعی نے الزام لگایا تھا کہ عابد باکسر نے بھتہ طلب کیا تھا، جو نہ دینے پر والد کو قتل کیا گیا۔

جعلی ’انکاؤنٹرز‘ میں لوگوں کو مارنے سمیت دیگر جرائم سامنے آنے کے بعد انسپکٹر عابد باکسر ملک سے فرار ہوگیا، 2007 کے بعد مبینہ طور پر وہ کبھی پاکستان نہیں آیا۔

ستمبر 2015 میں پنجاب حکومت کی جانب سے عابد باکسر کے سر کی قیمت 3 لاکھ روپے مقرر کی گئی۔

عابد باکسر کے حوالے سے مختلف اطلاعات آتی رہی ہیں کہ وہ کینیا ، ہانگ کانگ، دبئی یا مشرق وسطی کے دیگر ممالک میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہے۔

مختلف مواقع پر عابد باکسر میڈیا پر بھی سامنے آتا رہا اور حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ پولیس افسران پر الزامات عائد کرنے کے ساتھ دعویٰ کرتا رہا کہ کوئی بھی پولیس مقابلہ صوبے کے انتظامی سربراہ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔

عابد باکسر کے ریڈ وارنٹ جاری ہونے کے بعد انٹر پول کی مدد سے عابد باکسر کو گرفتار کرنے کی پہلی کوشش چند ماہ قبل کی گئی تھی، مبینہ طور پر ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ دبئی سے فرار ہوگیا تھا، اب پھر دبئی سے خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ شاید اس بار پنجاب پولیس کا مفرور انسپکٹر عابد بوکسر انٹر پول کی گرفت میں آ چکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں