سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے سپریم کورٹ میں اعتراف کیا کہ انھوں نے عطاالحق قاسمی کو پی ٹی وی کا چیئرمین نامزد کیا کیونکہ چاہتے تھے کہ پی ٹی وی اپنی پروڈکشن خود کرے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے چیئرمین پی ٹی وی کی تعیناتی کیس پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس نے بارہا استفسار کیا کہ عطاالحق قاسمی کی تعیناتی کس نے کی تھی۔

سابق وزیراطلاعات پرویز رشید نے چیئرمین پی ٹی وی کا نام تجویز کرنے کی ذمہ داری لیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ کوشش تھی ایسا شخص آئے تو سرکاری ٹی وی کی ثقافتی اقدار کو بحال کرے۔

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ جو گفتگو کررہے ہیں اس کے قانونی پہلو بھی ہوں گے، قانون میں چئیرمین کی تنخواہ اور مراعات کیا ہیں، کیا عطاالحق قاسمی کی تنخواہ مرضی سے مختص کی گئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ چئیرمین کاعہدہ تواعزازی ہوتا ہے۔

پرویز رشید کا کہنا تھا کہ جب میں وزیر اطلاعات بنا تو پی ٹی وی پروگرام مارکیٹ سے خریدتا تھا اس لیے کوشش تھی کہ پی ٹی وی اپنی پروڈکشن کرے اور مواد تخلیق کرے۔

سابق وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ عطاالحق قاسمی کا نام میں نے دیا تھا کیونکہ ان کے پاس 8 سال تک الحمرا آرٹس کونسل کے سربراہ کا تجربہ تھا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی کو چلانے کے لیے ایم ڈی کی جگہ ہوتی تھی چیئرمین نہیں ہوتا تھا اور تاحال ایم ڈی کا عہدہ خالی ہے۔

انھوں نے پوچھا کہ پرویز رشید نے ایک پلے رائٹر کو چیئرمین تعینات کیوں کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے دعویٰ کیا کہ وزارت اطلاعات نے عطاالحق قاسمی کی تعیناتی کی سمری بھجوادی جس کی منظوری اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے دے دی۔

رانا وقار نے کہا کہ پی ٹی وی کارپوریشن کے 7 ڈائریکٹرز ہیں اور تمام ڈائریکٹرز کا تقرر وفاقی حکومت کرتی ہے اور پی ٹی وی بورڈ نے عطا الحق قاسمی کو چئیرمین منتخب کیا تھا۔

خیال رہے کہ عطاالحق قاسمی کے حوالے سے تنازع اپریل 2017 میں سامنے آیا تھا جبکہ سیکریٹری اطلاعات سردار احمد نواز سکھیرا کو قائم مقام ایم ڈی پی ٹی وی تعینات کیا گیا تھاجس کے بعد انھوں نے دسمبر 2017 میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

عطاالحق قاسمی کی وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ عطاالحق قاسمی کا میڈیا ٹرائل ہورہا ہے اورعدالت کو بتایا گیا کہ عطاالحق قاسمی نے 27کروڑ خرچ کیے حالانکہ انھوں نے 48 لاکھ روپے وصول کیے۔

عائشہ حامد نے کہا کہ 27 کروڑ روپے کی رقم عطاالحق قاسمی سے منسوب کرنا ان کی بدنامی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عطاء الحق قاسمی نے پروگرام کرنے کا معاوضہ نہیں لیا اور بحیثیت چیئرمین 15 لاکھ روپے کی تنخواہ بلا جواز نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے تمام فریقین کو تحریری جوابات جمع کرنے کا حکم دیا اور عطا الحق قاسمی کی گزشتہ دس برس کی ٹیکس تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک مقدمہ زیر التوا ہے موجودہ سیکرٹری اطلاعات کو عہدے سے ہٹایا نہیں جائے گا جس کے بعد مقدمے کی سماعت 21 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں