برطانیہ کی سماجی تنظیم اوکسفیم کی نائب سربراہ پینی لارنس نے اپنے اسٹاف پر لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات کا مناسب جواب نہ ملنے پر عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پینی لارنس کی جانب سے استعفیٰ ایسے وقت میں سامنے آیا جب کچھ روز قبل ٹائمز اخبار نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 2011 میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے میں امدادی کام کے دوران سماجی تنظیم کے اسٹاف نے سیکس کے لیے جسم فروش خواتین کو معاوضہ ادا کیا۔

اپنے بیان میں پینی لارنس نے کہا کہ ’گزشتہ کچھ دنوں میں ہم یہ جان گئے تھے کہ وسطی افریقہ کے شہر چھیڈ اور ہیٹی میں ہمارے اسٹاف کے رویے پر تحفظات اٹھ رہے ہیں اور ہم مناسب طریقے سے اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: ریپ کے الزام میں اسلامک اسکالر زیر حراست

انہوں نے کہا کہ اب یہ بات واضح ہے کہ ہیٹی منتقل ہونے سے قبل ہمارے دونوں ممالک کے کنٹری ڈائریکٹر اور ان کی ٹیم پر لگائے گئے الزامات اور جسم فروش خواتین کا استعمال ان کے رویے سے واضح گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس وقت پروگرام ڈائریکٹر تھی اور مجھے شرمندگی ہے کہ یہ سب میری زیر نگرانی ہوا اور میں اس کی پوری ذمہ داری لیتی ہوں‘۔

تاہم ٹائمز اخبار میں لگائے گئے تفصیلی الزامات پر اوکسفیم کی جانب سے تردید اور تصدیقی نہیں کی گئی لیکن ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں ہیٹی میں ہونے والے اس عمل سے متعلق لگنے والے الزامات پر اندرونی طور پر تحقیقات کی گئی تھی۔

اوکسفیم نے بتایا کہ اس تحقیقات کے نتیجے میں 4 اسٹاف ممبر کو نکالا گیا تھا جبکہ ہیٹی کے کنٹری ڈائریکٹر سمیت 3 افراد نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’زندہ رہنے کیلئے خواتین کا ہراساں ہونا مجبوری‘

اوکسفیم نے اپنے بیان میں بتایا کہ مجرموں سے متعلق ڈرانے دھکانے، ہراساں کرنے، اسٹاف کی حفاظت نہ کرنے سمیت جنسی استحصال جیسی بدعنوانیاں سامنے آئی تھیں۔

واضح رہے کہ پینی لارنس کا استعفیٰ اسی دن سامنے آیا، جب اوکسفیم کے سینئر منیجر کو امداد فراہم کرنے والی برطانوی وزیر پینی مورڈانٹ کی جانب سے اجلاس میں بلایا گیا تھا اور دھمکی دی گئی تھی کہ اگر وہ تنظیم کو صاف کرنے میں ناکام رہے تو ان کی سرکاری امداد روک دی جائے گی۔


یہ خبر 13 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں