غوطہ: انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے سیرین آبزرویٹری گروپ (ایس او جی) نے انکشاف کیا ہے کہ جنگ زدہ شام کے شہر غوطہ میں سرکاری فوج اور فضائیہ کی جانب سے کارروائیوں اور بمباری سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 121 بچوں سمیت 510 عام شہری جاں بحق ہو گئے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایس اوجی نے واضح کیاکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں شام میں جنگ بندی کے معاملے پر ووٹنگ جمعرات کو ہونا تھی لیکن دوبارہ تاخیر کا شکار ہو گئی۔

یہ پڑھیں: امریکا اور ترکی شام کے معاملے پر باہمی اختلاف ختم کرنے پر متفق

برطانیہ میں قائم ایس او جی نے بتایا کہ صرف ہفتے کی رات کو شدید فضائی بمباری سے 8 معصوم بچوں سمیت 32 شہری جاں بحق ہوئے اور رہائشی علاقے میں آگ بھڑک اٹھی۔

ایس او جی کے مطابق مشرقی غوطہ گزشتہ کئی عرصے سے روس فضائیہ کی حمایت یافتہ شامی حکومتی فورسز کے نشانے پر ہے اور یہاں شدید بمباری کی جارہی ہے۔

دوسری جانب امریکا کے صدر ڈونلڈٹرمپ نے جمعے کو شام میں روسی کردار کو ’حقارت آمیز‘ گرادنا تھا۔

ترکی نے عالمی برادری پر زور دیا کہ جنوبی غوطہ میں خون کی ہولی بند کرائی جائے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گیوٹرز کی جانب سے باغیوں کے علاقوں کو ’زمین پر جہنم‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ شام میں مشرقی غوطہ میں جاری لڑائی کو فوری طور پر ختم کیا جائے

یہ بھی پڑھیں: شام میں خانہ جنگی: ایران، ترکی کے درمیان براہ راست ٹکراؤ کا خطرہ

شامی فوج کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس علاقے کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن ان پر عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔

تاہم بی بی سی کا کہنا تھا کہ روس اس قرار داد کو پاس کرنے کی اجازت نہیں دے گا، روس کا کہنا تھا کہ وہ سیکیورٹی کونسل کا فوری اجلاس چاہتا ہے تاکہ اس معاملے پر بات چیت کی جاسکے جبکہ مغربی سفارتکاروں کے خیال میں یہ ایک سازش ہے تاکہ شامی فوج کو وقت مل سکے اور وہ اپنا مقصد جاری رکھ سکیں۔

اس کے علاوہ شامی حکومت کے ایک اور اتحادی ایران کا کہنا تھا کہ وہ مشرقی غوطہ میں کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور اس سلسلے میں شام، روس اور ترکی سے رابطے میں ہے۔

اس بارے میں ایران کے نائب وزر خارجہ عباس عرقچی نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کا ماننا ہے کہ اس تنازع کا فوجی حل نہیں بلکہ سیاسی حل ہے۔

مشرقی غوطہ کی بدترین صورتحال

شام میں جاری تنازع کے بعد مشرقی غوطہ میں پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ ہوتی جارہی ہے اور روسی حمایت یافتہ شامی فورسز کی جانب سے باغیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اس خطے میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر بسام کا کہنا تھا کہ مشرقی غوطہ میں صورتحال تباہ کن ہے اور لگتا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے یہاں موجود لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ دکانوں، مارکیٹوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد یہاں تک کہ ہر چیز کو نشانہ بناتے ہیں اور ہر منٹ میں 10 یا 20 فضائی حملے کیے جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ہم مرنے کا انتظار کررہے ہیں، مشرق غوطہ کے مکین

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ میں نے ایک شخص کا علاج کیا اور ایک یا دو دن بعد وہ دوبارہ زخمی ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں بین الاقوامی برادری کہاں ہے، کہاں ہے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل؟ ان سب نے ہمیں یہاں مرنے کو چھوڑ دیا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ ان حملوں میں تقریباً 346 شہری ہلاک اور 878 زخمی ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر فضائی حملے سے متاثر ہوئے جبکہ یہ اعداد و شمار برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔

مشرقی غوطہ کے لوگوں کو موت کا انتظار

دریں اثناء غیر ملکی خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ شامی حکومت کی جانب سے جاری بمباری پر مشرقی غوطہ کے رہائشیوں کا کہنا تھا وہ لوگ ’مرنے کا انتظار‘ کررہے ہیں۔

اگر مشرقی غوطہ کے حالات کے بارے میں تصور کیا جائے تو دمشق کے قریب باغیوں کے علاقوں میں شامی حکومت کی جانب سے بدترین اور وحشیانہ بمباری کی جارہی ہے۔

گزشتہ روز ہونے والے حملے میں تقریباً 38 افراد ہلاک ہوئے جبکہ اتوار سے جاری بمباری کے دوران ہلاک ہونے والے شامیوں کی تعداد 310 سے تجاوز کرچکی ہے اور 1550 سے زائد زخمی ہوئے۔

8 ویں سال میں داخل ہونے والی شامی خانہ جنگی میں یہ حملے بدترین حملوں کے طور پر تصور کیے جارہے ہیں اور اس شدید بمباری کے دوران راکٹ، شیلنگ، فضائی حملے اور ہیلی کاپٹر سے فضائی بمباری بھی کی جارہی ہے۔

مشرقی غوطہ میں جاری اس شدید بمباری پر وہاں کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم صرف ایک چیز کہہ سکتے ہیں کہ ’ہم مرنے کا انتظار کررہے ہیں‘۔

ریڈ کراس کا مطالبہ

شام میں جاری اس جنگ کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی برادری (آئی سی آر سی) نے مطالبہ کیا کہ انہیں غوطہ میں انسانی حقوق کی خدمات فراہم کرنے کی اجازت دی جائے، خاص طور پر حملوں میں زخمی ہونے والوں کو علاج معالجے کی فوری ضرورت ہے۔

شام میں آئی سی آر سی کی سربراہ میریان گیسر کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مزید لوگ اس لڑائی سے متاثر ہوں گے اور یہ ایک پاگل پن ہے جسے فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔

طبی امداد فراہم کرنے والی ایک رضا کار کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 روز میں 13 ہسپتالوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جس میں کچھ ہسپتال مکمل تباہ ہوگئے ہیں۔

علاوہ ازیں اس طرح کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ بمباری کے بعد شام میں ترکی کے حمایت یافتہ باغیوں نے عفرین شہر کی جانب پیش قدمی شرقع کردی ہے، جہاں انہیں امریکی اور شامی حکومت کی حمایت یافتہ وائی پی جی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

خانہ جنگی کا شکار ملک شام کے شہر مغوطہ میں

شامی شہرغوطہ میں سرکاری فوج کی ایک ہفتے سے جاری بمباری میں اب تک 500 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں 121 بچے بھی شامل ہیں۔

شامی حکومت کے فوجی دستوں اور فضائیہ کی جانب سے 18 فروری سے جاری بمباری میں جاں بحق افراد کی تعداد 500 ہوگئی ہے۔


یہ خبر 25 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں