اسلام آباد: پارلیمانی جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سامنے نئی حلقہ بندیوں اور ووٹر فہرستوں پر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کردیا۔

ای سی پی نے گزشتہ روز پارلیمانی جماعتوں کے وفد کو آگاہ کیا کہ نئی حلقہ بندیوں پر مشتمل مسودہ 6 مارچ کو آویزاں کردیا جائے گا تاکہ متعلقہ حلقوں کے اعتراضات سامنے آسکے۔

یہ پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں:وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں کی نشستوں میں اضافہ

دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے تمام پارلیمانی رہنماؤں پر مشتمل وفد کو بتایا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے تشکیل دی گئی چھ کمیٹیوں کی جانب سے تجاویز وصول ہونے کے بعد کمیشن نے جائزہ لیا۔

پارلیمانی وفد کی سربراہی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کررہے تھے۔

ای سی پی نے بتایا کہا نئی حلقہ بندیوں اور ووٹرلسٹ کی تجدید کا عمل مئی کے پہلے ہفتے میں کردیا جائے گا۔

بعدازاں تمام پارلیمانی رہنماؤں نے میڈیا سے بات چیت اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ ’الیکشن کمیشن نے پارلیمانی وفد کو بتایا کہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق تقریباً 300 تجاویز پر صلاح و مشورہ کیا گیا لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ الیکشن کمیشن نے مشاورتی عمل کس کے ساتھ کیا ‘۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حلقہ بندیاں: ’مسلم لیگ، پیپلز پارٹی کے مطالبات پر غور کرسکتی ہے‘

انہوں نے ای سی پی کی شکایت کی کہ ’نئی حقلہ بندیوں سے متعلق تجاویز پر پارلیمانی رہنماؤں کو مشاورتی عمل میں شامل نہیں کیا گیا‘۔

مرتضیٰ جاوید عباسی نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ جہاں آبادی کی شرح میں اضافہ ہوا وہاں کے حلقوں میں معمولی تبدیلی کی ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ بعض سیاسی رہنما مخصوص علاقوں کی نئی حلقہ بندیوں سے متعلق سوشل میڈیا پر رپورٹس چلا رہے ہیں، اگر ای سی پی کا مجوزہ مسودہ سوشل میڈیا پر چلنے والی رپورٹس سے مسابقت رکھتا ہے تو لمحہ فکریہ ہوگا‘۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے بھی ملتے جلتے تحفظات کا اظہار کیا کہ پی ٹی آئی سے نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں کوئی رائے طلب نہیں کی گئی تو یہ 300 تجاویز کہاں سے آگئیں؟

مزید پڑھیں: حلقہ بندی معاملہ: مطالبات کی منظوری تک حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے، پی پی پی

انہوں نے اس دعوے کو رد کیا کہ 80 فیصد ووٹرز کی تصدیق کا عمل گھر گھر جا کر مکمل کیا گیا تاہم 10 فیصد کام اب تک مکمل نہیں کیا جا سکا۔

عارف علوی نے بتایا کہ ’بعض حلقوں میں ووٹرز کی تعداد 9 لاکھ 25 ہزار اور متعدد حلقوں میں 6 لاکھ سے بھی کم ووٹرز‘ ہیں جو متعلقہ قانون کے خلاف ورزی ہے۔

وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ الیکشن قوانین 2017 کے تحت اگر ایک ووٹر اپنے حلقہ بندی کو چیلنج کرتا ہے تو پورے ضلع کی نئی حلقہ بندی کے لیے تجویز تیارکی جاتی ہے۔

وزیر قانون نے قوانین کے ازسر نو جائزہ لینے تجویز پیش کی اور ای سی پی سے مطالبہ کیا کہ وہ نئی حلقہ بندیوں سے متعلق معلومات اپنی آفیشل ویب سائٹ پر جاری رکھے۔

وفاقی وزیر برائے نجکاری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے قوائط و ضابط کے مطابق کام نہیں کیا گیا جبکہ ای سی پی کی جاری کردہ گائیڈ لائنز میں رول 9 اور 10 شامل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سنیٹرل ورکنگ کمیٹی کے سامنے ای سی پی میں ہونے والے اجلاس کی تفصیلات پیش کی جائیں گی جس کے بعد ہی پارٹی اپنا موقف اختیار کر سکے گی۔

خیبر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکر نے مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستیں 16 سے بڑھا کر 32 کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا)، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بسنے والے بیشتر افراد کے شناختی کارڈ جاری نہیں ہو ئے۔


یہ خبر 27 فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں