کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے قتل ہونے والے نوجوان انتظار احمد کی تفتیش کے لیے بنائی گئی نئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کو پراسیکیوشن نے سفارش کی ہے کہ اس واقعے میں ایس ایس پی مقدس حیدر کے کردار کو واضح کیا جائے۔

سینٹرل پولیس آفس سندھ (سی پی او) میں انتظار قتل کی تفتیش کرنے والی نئی جے آئی ٹی کا تیسرا اجلاس ہوا جہاں مقتول کے والد اشتیاق احمد اپنے وکیل آصف خدائی کے ہمراہ پیش ہوئے۔

جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد اشتیاق احمد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل آصف خدائی کا کہنا تھا کہ ایڈیشنل آئی جی کی جانب سے بلایا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ جو کچھ تھا وہ ہم جے آئی ٹی کے اجلاس میں بتا چکے تھے اسی کو آج مزید تفصیل سے آگاہ کیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایک سے دو دن میں رپورٹ مکمل کرلی جائے گی جس کی کاپی ہمیں بھی فراہم کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:انتظار قتل کیس: انصاف نہ ملا تو قبرستان میں بیٹھ جائیں گے، والد

دوسری جانب پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ نے کیس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ لگانے کی سفارش کرتے ہوئے ایس ایس پی مقدس حیدر کے کردار کو واضح کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ نے سفارش کی ہے کہ انتظار کے والد کے خدشات کو بھی دیکھا جائے۔

وکیل آصف خدائی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی ہم سے بیان لیتی ہے لیکن ہم رپورٹ کے بعد بتا سکیں گے کہ مطمئن ہیں یا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ لگتا ہے کیونکہ وردی میں نہ ہونا اور دو پولیس اہلکاروں کا اس جگہ موجود ہونا جو اس ٹیم کا حصہ نہیں تھے اس لیے یہ بات ٹارگٹڈ کارروائی ثابت کرتی ہے۔

قبل ازیں نئی جے آئی ٹی کے دوسرے اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انتظار کے والد نے کہا تھا کہ اگر ہمیں انصاف نہیں ملا تو قبرستان میں جا کر بیٹھ جائیں گے۔

انھوں نے کہا تھا کہ مجھے جے آئی ٹی میں شامل افسران کی نیت پر شک نہیں ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی اللہ کو جواب دینا ہے۔

مزید پڑھیں:انتظار قتل کیس: مقتول کے والد نے جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرادیا

یاد رہے کہ انتظار کے قتل کیس کی تحقیقات کے لیے رواں ماہ ایک نئی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس(ایم آئی)، انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)، رینجرز اور اسپیشل برانچ کے افسران شامل ہیں۔

انتظار احمد کو ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں 13 جنوری 2018 کو اے سی ایل سی اہلکاروں نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کرنے کے باوجود نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشت گری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا، جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 2 افسران بھی شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں