کراچی میں انتظار قتل کیس میں بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی ) کے پہلے اجلاس میں مقتول کے والد اشتیاق جبکہ عینی شاہد مدیحہ کیانی اور سابق ایس ایس پی مقدس حیدر بیان ریکارڈ کرا دیا۔

ایس ایس پی انٹیلی جنس سی ٹی ڈی پرویز چانڈیو کی سربراہی میں بنائی گئی جے آئی ٹی کا پہلا اجلاس جاری ہے اور کیس سے جڑے تمام افراد ان کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرائے۔

اجلاس کے دوران مقتول کے والد نے بیان ریکارڈ کرایا تاہم وہ صحافیوں سے بات چیت کیے بغیر واپس روانہ ہوگئے۔

مزید پڑھیں: 'انتظار احمد کا قتل پولیس کی ناکامی کی وجہ سے ہوا'

خیال رہے کہ گزشتہ روز ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) عامر فاروقی نے انتظار قتل کیس کے معاملے کو پولیس کی ناکامی قرار دیتے ہوئے معاملے پر جے آئی ٹی تشکیل دینے کی سفارش کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کی ناکامی ثابت ہوئی ہے، پولیس نے شدید غفلت کا مظاہرہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ انتظار کی گاڑی کو روکنے کی بات نے کئی شبہات پیدا کیے ہیں اور گاڑی روکنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انتظار کو اغوا کیا جارہا تھا۔

ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ تمام تر کاروائی جلد بازی اور لاپرواہی میں کی گئی جس سے انتظار کی موت واقع ہوئی۔

خیارل رہے کہ اس سے قبل مقتول انتظار کے والد نے پولیس تفتیش پر عدم اطمینان ک اظہار کیا تھا اور واقعے کو سی ٹی ڈی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

انتظار قتل کیس میں کب کیا ہوا؟

ڈیفنس کے علاقے خیابان اتحاد میں ہفتہ 13 جنوری 2018 کی شب کو اے سی ایل سی اہلکاروں کی جانب سے ایک گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا گیا تھا، جس کے نہ رکنے پر اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی، جس سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد جاں بحق ہوگیا تھا۔

ابتدائی طور پر پولیس کی جانب سے اس واقعے کو دہشتگری کا واقعہ قرار دیا جارہا تھا، تاہم بعد ازاں درخشاں تھانے میں اس کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد مقتول انتظار کے والد اشتیاق احمد کی جانب سے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کی گئی تھی جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔

14 جنوری کو اس کیس میں 6 اے سی ایل سی اہلکاروں کو حراست میں لیا تھا، جس میں 2 انسپکٹر، 2 ہیڈ کانسٹیبل اور 2 افسران بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیفنس میں نوجوان کا قتل: اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکار گرفتار

15 جنوری کو ان ملزمان کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں عدالت نے ملزمان کو 7 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں انتظار احمد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آئی تھی، جس میں معلوم ہوا تھا کہ نوجوان کی ہلاکت صرف ایک گولی لگنے سے ہوئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اے سی ایل سی اہلکاروں نے انتظار پر 17 سے زائد گولیاں چلائیں جبکہ مقتول انتظار کو سیدھے کان کے پیچھے ایک گولی لگی جو اس کے سر سے آر پار ہوگئی تھی جس کے بعد وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا تھا۔

علاوہ ازیں مقتول انتظار کی ابتدائی فارنزک رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس کے مطابق انتظار پر 2 پستول سے 18 گولیاں فائر کی گئیں تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں