افغان صدر اشرف غنی نے ’ ملک بچانے‘ کے لیے طالبان کو امن عمل کا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہوئے پڑوسی ملک پاکستان کو بھی حکومتی سطح پر مذاکرات کی پیش کش کردی۔

افغان نشریاتی ادارے طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق کابل میں دوسری امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’ ہم ماضی کو بھلا کر ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں‘۔

افغان صدر نے طالبان کو ایک مضبوط پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آج امن ان کے ہاتھ میں ہے اور میں طالبان کے گروپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ہماری پیش کش کو قبول کریں اور افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل ہوں۔

مزید پڑھیں: امریکا تیسرے فریق کو چھوڑ کربراہِ راست مذاکرات کرے، طالبان

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت امن عمل میں شامل ہونے والے طالبان کو سہولیات اور سیکیورٹی فراہم کرے گی اور ’ ہم امن مذاکرات میں طالبان کے خیالات کو ترجیح دیں گے‘۔

اس موقع پر اشرف غنی نے اعلان کیا کہ افغان حکومت طالبان رہنماؤں اور ان کے اہل خانہ کو پاسپورٹ جاری کرے گی اور ان کے اور ویزا کے لیے کابل میں ایک دفتر بھی کھولا جائے گا جبکہ ہم طالبان رہنماؤں کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔

خیال رہے کہ امریکا اور نیٹو فورسز کی جانب سے 2014 میں جنگی مشن کے خاتمے کے بعد سے افغانستان میں بدامنی میں اضافے کا الزام طالبان کے گروپ پر لگایا جاتا رہا ہے اور ملک بھر میں ہونے والے حملوں کو افغان سیکیورٹی فورسز کی ناکامی تصور کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ افغان صدر کی جانب سے 48 گھنٹوں سے قبل یہ پیش کش افغان طالبان کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے امریکا کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کابل حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی، افغانستان کا دعویٰ

افغان طالبان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کے لیے امریکا کو ’اسلامی امارات‘ کے سیاسی دفتر میں براہِ راست مذاکرات کریں‘۔

واضح رہے کہ واشنگٹن کئی عرصے سے طالبان سے مذاکرات چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی مطالبہ ہے کہ ہر مذاکراتی عمل میں افغان حکومت شامل ہو گی جبکہ طالبان افغان حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں