اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اے ڈی خواجہ تقرری کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ بدقسمتی سے وہ لوگ تبصرے کررہے ہیں جو بنیادی نکات سے واقف ہیں، لگتا ہے شاید ہمیں اس کیس پر لارجر بینچ بنانا پڑے، کیونکہ یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کا کیس ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اے ڈی خواجہ کی تقرری کیس کی سماعت کی۔

کیس کی سماعت کے دوران فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرکے 11 نکات دیئے، انہوں نے دلائل دیئے کہ ہائی کورٹ صرف وہ ریلیف دے سکتا ہے جو آئین میں دیا گیا ہے جبکہ ہائی کورٹ ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں رکھتا۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ہائی کورٹ حکم دے سکتا ہے، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کو فیصلوں سے متعلق شک ہوتا ہے جبکہ ہم نے فیصلے بھی دینے ہیں اور ان فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہونا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں صوبائی حکومت کو قانون سازی سے روکا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو کام جاری رکھنے کا حکم

ان کا کہنا تھا کہ جو حق دیا گیا ہے وہ ہائی کورٹ لینے کا اختیار نہیں رکھتی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو نہیں صوبائی کابینہ کو روکا ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) کی مدت تین سال کیوں کی گئی اس کی وضاحت نہیں دی گئی اور دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آئی جی کو جب صوبائی حکومت چاہے ہٹا دے؟ قانون بنانے کا مقصد یہ نہیں کہ سیاست سے الگ رکھنا ہے اور سندھ حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ جب چاہے پولیس افسران کو ہٹادے یا تبادلے کردے۔

چیف جسٹس نے سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ اے ڈی خواجہ کے کتنے دن رہ گئے ہیں جو آپ اتنے پریشان ہو رہے ہیں؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم بالکل بھی پریشان نہیں تاہم صوبائی حکومت کو قانون بنانے سے روکنا پارلیمانی بالادستی کے خلاف ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کسی آئی جی پر متفق ہوں تو پھر ٹھیک ہے، جس پر صوبہ سندھ کے وکیل نے زور دیا کہ اس معاملے میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی نفی ہو رہی ہے جبکہ لوگ خوامخواہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو مکمل اختیار حاصل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے ہیں مگر قوانین کے جائزے کا اختیار بھی رکھتے ہیں، اس موقع پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پولیس کا صرف صوبے کے ماتحت ہونے سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ درست نہیں اور ہائی کورٹ کا اپنا فیصلہ پیرا 103 کے متضاد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کو عہدے پر برقرار رکھنے کا حکم

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت متفقہ فیصلہ کرے اسے کابینہ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پارلیمنٹ کسی عدالت کو قانون کا جائزہ لینے سے روک سکتی ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیئے کہ آئین کے تحت صوبے کو وہ قانون بنانے کا اختیار ہے جو وفاقی قانون سازی فہرست میں شامل نہیں

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی اسمبلیاں قانون بنانے کا مکمل اختیار رکھتی ہیں اور استفسار کیا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون بنائے جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو کیا ہم اسے کالعدم قرار دے سکتے ہیں؟ جس پر وکیل سندھ حکومت نے دلائل دیئے کہ سپریم کورٹ کو ہر اختیار حاصل ہے۔

چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ ایسا قانون جو آئین کی کسی شق سے متصادم ہو کیا ہم اسے کالعدم قرار نہیں دے سکتے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ گرے ایریا میں آتا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پتہ نہیں لوگوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی؟ یہ الجبرا یا ریاضی کا کوئی سوال نہیں، جو سمجھ نہ آئے، ہم روز کہتے ہیں پارلیمنٹ سپریم ہے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ کے بنائے گئے کتنے ایسے قوانین ہیں جن کو عدالت نے کالعدم قرار دیا؟ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وہ لوگ تبصرے کررہے ہیں جو بنیادی نکات سے واقف ہیں، ہمیں لگتا ہے شاید ہمیں اس پر لارجر بینچ بنانا پڑے، کیونکہ یہ وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کا کیس ہے۔

مزید پڑھیں: آئی جی کو ہٹانے کی کوشش پر سندھ حکومت کو قانونی نوٹس جاری

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے خود مختار تو ہوگئے لیکن مشترکہ مفادات کونسل ابھی موثر نہیں جبکہ وفاق کا مطلب ہی یہی ہے کہ صوبوں کے ساتھ مل کر نظام کو چلایا جائے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید ریمارکس دیئے کہ کوشش کریں گے اگر لارجر بینچ بنتا ہے تو اس میں تمام صوبوں کے ججز کی نمائندگی ہو۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کیس کی سماعت 7 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔

اس سے قبل 18 جنوری 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے انسپکٹر جنرل ( آئی جی) سندھ پولیس کی تقرری کے معاملے پر صوبائی حکومت کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے موجودہ آئی جی اے ڈی خواجہ کو اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 7 ستمبر کو سندھ ہائی کورٹ میں آئی جی سندھ پولیس کو عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے اے ڈی خواجہ کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ صوبائی حکومت بغیر کسی جواز کے آئی جی سندھ کو عہدے سے نہیں ہٹا سکتی، ساتھ ہی آئی جی کو افسران کی تعیناتی کا مکمل اختیار بھی ہوگا۔

اپنے فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو پابند کیا تھا کہ آئی جی کو ہٹانے کے لیے انیتا تراب کیس میں دیئے گئے نکات پر عمل کیا جائے، جس کے تحت 3 سال سے پہلے آئی جی سندھ کو ان کے عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔

بعد ازاں اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے 30 اکتوبر کو سندھ حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اپیل کی تھی کہ صوبائی حکومت سندھ کے آئی جی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

حکومت سندھ کی جانب سے فاروق ایچ نائیک نے درخواست جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

سندھ حکومت اور اے ڈی خواجہ کا معاملہ

خیال رہے کہ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد مارچ 2016 میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔

تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث اے ڈی خواجہ سندھ کی حکمراں جماعت کی حمایت کھوتے گئے۔

محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی، جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔

اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے سندھ حکومت کے اُن ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔

دسمبر 2016 میں صوبائی حکومت نے اے ڈی خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ہٹانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کے خلاف ہے۔

تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئی جی سندھ 15 دن کی چھٹی پر گئے تھے اور انھوں نے خود اس کی درخواست دی تھی۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد جنوری 2017 میں اے ڈی خواجہ نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔

اپریل 2017 میں حکومت سندھ نے اے ڈی خواجہ کی خدمات واپس وفاق کے حوالے کرنے کے بعد 21 گریڈ کے آفیسر سردار عبدالمجید کو قائم مقام انسپکٹر جنرل سندھ مقرر کردیا۔

بعد ازاں 30 مئی 2017 کو اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر فیصلہ کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی کو کام جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

اس فیصلے کے بعد حکومت سندھ نے اس فیصلےکو چیلنج کیا تھا جبکہ وفاقی کابینہ سے بھی آئی جی کی تبدیلی سے متعلق درخواست کی تھی۔

جس پر وفاقی کابینہ نے رواں سال 10 جنوری کو ایک 22 گریڈ کے افسر عبدالمجید دستی کو سندھ کا نیا آئی جی مقرر کرنے کی منظوری دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں