اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب صدر سید جاوید اکبر نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں تیسری مرتبہ توسیع کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) انتظامیہ پر سخت تنقید کی اور اقدام کو آرڈیننس کے منافی قرار دیا۔

انہوں نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999، کے سکشن 5 اے، ون کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ’ ڈسٹرکٹ اور سیشن جج بطور عدالتی جج صرف تین سال مدت ملازمت رکھ سکتا ہے‘۔

یہ پڑھیں: ’چیف جسٹس دیگر اداروں سے قبل عدلیہ میں اصلاحات کریں‘

جاوید اکبر نے صحافیوں کو بتایا کہ محمد بشیر کی ملازمت میں توسیع ناصرف این اے او کے منافی ہے بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے وعدے کے خلاف بھی ہے جس میں انہوں نے ماتحت عدلیہ کے ججز کو بدلنے کا ذکر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے وکیل، ججز کی ماتحت عدالت میں ہر تین سال بعد تبدیلیوں کے حق میں ہے کیونکہ اس طرح اسلام آباد عدلیہ میں جوڈیشنل افسر کی تعیناتی سے ان کے ساتھی وکیل کی تربیت بھی ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ محمد بشیر کی مدت ملازمت 13 مارچ کو مکمل ہو جائے گی، انہیں پہلی مرتبہ 2012 میں احتساب عدالت میں تعینات کیا گیا اور دوسری مرتبہ 2015 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئی ایچ سی کی سفارش پر اگلے تین برس کی توسیع دی جو آئندہ چند ہفتوں میں اختتام پذیر ہو جائے گی۔

[یہ بھی پڑھیں: جسٹس یاور شاہ کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش

یاد رہے کہ محمد بشیر وہ جج ہیں جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف دائر پانچ ریفرنسز میں انہیں بے قصور قرار دیا تھا۔

آئی ایچ سی کی انتظامیہ نے 24 فروری کو وزارت قانون میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ڈی اینڈ ایس جے) محمد بشیر کی ملازمت میں توسیع کا مراسلہ ارسال کیا تھا۔

مراسلے میں آئی ایچ سی کے رجسٹرار نے بتایا تھا کہ ’کورٹ میں جوڈیشل افسر خصوصاً ڈی اینڈ ایس جے (بی پی ایس -21) کی بہت کمی ہے، صرف 13 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز آئی ایچ سی میں کام کررہے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: جسٹس (ر) سید اصغر حیدر 3 سال کیلئے نیب پراسیکیوٹر تعینات

دوسری جانب وزارت قانون کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ متعلقہ ادارے نے ڈی اینڈ ایس جے محمد ارشد ملک کو اسلام آباد کی دوسری احتساب عدالت میں تعینات کرنے کے لیے سمری وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ارسال کردی ہے تاہم محمد بشیر کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ تاحال وزارت قانون میں زیر غور ہے۔


یہ خبر 4 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں