کوئٹہ: سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد نئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے جوڑ توڑ کا آغاز کردیا ہے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بلوچستان کے نو منتخب آزاد سینیٹرز رابطہ کیا ہے۔

پی پی پی کے وفد نے وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت صوبے کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقات کی، وفد میں ڈاکٹر قیوم سومرو اور فیصل کریم کنڈی شامل تھے۔

خیال رہے کہ بلوچستان سے 6 آزاد اُمیدواروں نے حالیہ سینیٹ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔

یاد رہے کہ پی پی پی کا وفد خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ پہنچا تھا تاکہ ایوان بالا کے چیئرمین کے انتخاب کے سلسلے میں حمایت حاصل کی جاسکے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات غیر سرکاری نتائج: مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت بن گئی

واضح رہے کہ پی پی پی اور پی ٹی آئی ایوان بالا کے چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنے اُمیدوار کو منتخب کروانے کے لیے بلوچستان کے 6 آزاد نو منتخب سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

پی پی پی کے وفد کی کوئٹہ آمد سے قبل پی ٹی آئی کے نا اہل رہنما اور سابق چیئرمین جہانگیر ترین نے نو منتخب سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو فون کر کے ان سے حمایت کے لیے کہا تھا۔

تاہم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نو منتخب آزاد سینیٹرز نے کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت سے انکار کیا، ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہیں تاہم ہم کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کررہے‘۔

علاوہ ازیں نو منتخب آزاد سینیٹرز نے سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ اس مرتبہ سینیٹ چیئرمین کا عہدہ بلوچستان کو دیا جائے۔

نو منتخب آزاد سینیٹر صادق سانجرانی نے کہا کہ ’اس مرتبہ چیئرمین سینیٹ کی نشست بلوچستان کو دی جانی چاہیے تاکہ یہاں کے لوگوں کا احساس محرومی ختم کیا جاسکے‘۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات

یاد رہے کہ ملک کی حکمراں جماعت کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب صوبائی اسمبلی میں 21 ارکان کی موجودگی کے باوجود مسلم لیگ (ن) بلوچستان سے ایک بھی سینیٹر نشست حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

علاوہ ازیں 6 آزاد سینیٹرز کے علاوہ بلوچستان سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) اور نیشنل پارٹی (این اے) نے ایوان بالا میں دو، دو نشستیں حاصل کیں۔

دونوں سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعتیں ہیں، اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے صوبے سے ایک سینیٹر کی نشست حاصل کی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وفاق اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سمیت چاروں صوبوں میں 52 خالی سینیٹ نشستوں پر 133 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا تھا۔

واضح رہے کہ پنجاب کی 12 نشستوں پر 20 امیدوار، سندھ کی 12 نشستوں پر 33 امیدوار، خیبرپختونخوا کی 11 نشستوں پر 26 امیدوار، بلوچستان کی 11 نشستوں پر 25 امیدوار، فاٹا کی4 نشستوں پر 25 امیدوار اور وفاق سے 2 نشستوں پر 5 امیدوارحصہ لیا تھا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات: ’ہارس ٹریڈنگ میں پی ٹی آئی کی بیشتر خواتین ارکان ملوث‘

سینیٹ انتخابات 2018 کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے برتری حاصل کرلی، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مولانا سمیع الحق کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

واضح رہے کہ ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 104 ارکان کے اس ایوان میں چاروں صوبوں سے کل 23 ارکان ہیں، جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور 1 اقلیتی رکن ہے، فاٹا سے 8 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں، اسلام آباد سے کل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور 1 ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔

سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں، اس مرتبہ بھی سینیٹ کی آدھی یعنی 52 نشستوں پر انتخابات ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں