سینیٹ انتخابات کے نتائج پر سیاسی جماعتوں کے ابتدائی ردِعمل سے واضح ہوگیا ہے کہ پارلیمنٹ ملک میں جمہوری مرحلے کے لیے اہم وہ ادارہ کیوں نہیں بن سکی ہے جو اسے بننا چاہیے۔

جیتنے والوں اور ہارنے والوں کے ردِعمل شدید سیاسی ہیں۔ یہ بات بذاتِ خود مسئلہ نہیں ہے۔ سینیٹرز کو منتخب کرنے والے ملک کی اسمبلیوں میں موجود عوام کے نمائندے ہیں، جن پر درست طور پر سیاسی جماعتوں کی بالادستی ہے۔

مگر پھر بھی سینیٹ کی ترکیب، یعنی چاروں صوبوں سے مساوی تعداد میں سینیٹرز کا انتخاب اور سینیٹرز کے مختلف زمروں کی موجودگی وفاق کی مضبوطی کے ایک بلند مقصد کے لیے ہے۔

مگر ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزامات، جسے کسی بھی سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل حل کرنے کی کوشش نہیں کی، اور پھر کسی کی بھی واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود ایوان میں سینیٹ چیئرمین کی کرسی کے لیے کشمکش سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات سینیٹ کے آئین میں موجود تصور سے کافی مختلف ہیں۔

نئے آنے والے سینیٹرز کے پاس اب جمہوریت سے اپنی لگن اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کرنے کے لیے 6 سال ہوں گے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پنجاب پر مرتکز سیاست اور پارٹی قیادت کے پارلیمانی روایات سے سخت بے اعتنائی برتنے نے پارلیمنٹ کو بحیثیت ادارہ کمزور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مگر دوسری جماعتوں اور زیادہ تر سینیٹرز نے بھی اس کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔

یہ بات حیران کن ہے کہ چند ایک سینیٹرز کو چھوڑ کر سینیٹ کس طرح وقت کے اہم ترین مسائل پر خاموش رہی ہے۔ لاپتہ افراد سے لے کر چھوٹے صوبوں کے حقوق کے ذریعے وفاق کی مضبوطی تک، خاص طور پر بلوچستان میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال کے متعلق سینیٹرز نے عمومی طور پر ریاست کا رخ بہتر نتائج کی جانب نہیں موڑا ہے۔

اگر صورتحال کو بہتر کرنا ہے تو ووٹوں کی خرید و فروخت اور ہارس ٹریڈنگ کو فوراً سے پیشتر حل کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اپنے حمایت یافتہ ارکان کی جیت کا جشن منا رہی ہے مگر وہ اب بھی سرکاری طور پر آزاد امیدوار ہیں۔ یہ تبدیل بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ سینیٹ میں کئی نئے افراد ہیں، خاص طور پر بلوچستان سے بھی، جن کی سیاسی وفاداریاں فوراً بدل سکتی ہیں۔

اگر پچھلا رجحان واپس خود کو دہراتا ہے تو شاید ہمیں عمران خان کے براہِ راست سینیٹ انتخابات کے مطالبے پر توجہ دینی چاہیے۔ موجودہ نظام کو باقی رکھنے میں پی ٹی آئی کے کردار پر تنقید ایک طرف، مگر ہر کسی کی مثبت تجویز پر غور کرنا چاہیے۔ اس وقت ملک کو ماضی سے بہتر سینیٹ کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ اداریہ 5 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں