اسلام آباد میں خصوصی عدالت نے سابق صدر اور آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت میں وزارت داخلہ کو ان کی گرفتاری اور بیرون ملک سے پاکستان حوالگی کے لیے اقدامات اٹھانے کی ہدایت کردی۔

خصوصی عدالت میں جسٹس یحیٰ آفریدی کی سربراہی میں کیس کی سماعت 3 رکنی بینچ نے کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی شامل تھے، جس میں حکومت کی جانب سے اکرم شیخ بطور وکیل پیش ہوئے۔

یہ پڑھیں: پرویز مشرف، طاہرالقادری کو میڈیا میں نہ آنے دیا جائے، پٹیشن دائر

اس حوالے سے خصوصی عدالت نے وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری کو پرویز مشرف کی برطانیہ اور متحدہ عرب امارت میں موجود جائیداد ضبط کرنے کی ہدایت کردی۔

وزارت داخلہ کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ بیرون ملک جائیداد ضبط کرنے کا معاملہ درکنار، پاکستان میں موجود 4 سے 7 ان کے اثاثوں کی ملکیت سابق آرمی چیف کے نام سے منسوب ہیں اور ان تمام مذکورہ جائیداد پر تنازع بھی جاری ہے۔

وزارت داخلہ نے مزید بتایا کہ جائیداد پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا اختر، بیٹی عائلہ رضا سمیت دیگر رشتے دار ہدایت اللہ کی جانب سے شریکِ ملکیت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس آفریدی نے پراسیکیوٹر محمد اکرم شیخ سے تجویز طلب کی کہ پرویز مشرف بیرون ملک میں ہیں اور انہیں عدالت نے مفرور قراردے رکھا ہے، تو اس معاملے میں کیا کیا جاسکتا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: مشرف کے انکشاف نے پاکستان کو شرمندہ کردیا: دفتر خارجہ

چیف پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف کو کریمنل کوڈ کے سیکشن 342 کی رو سے عدالت میں پیش ہو کر اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے یا تحریری بیان پیش کریں تا کہ گزشتہ ساڑھے 4 سال سے زیر التوا کیس کو حتمی نتیجے تک پہنچایا جائے۔

جسٹس آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ خصوصی عدالت اس صورت میں دوبارہ سماعت شروع کرسکتی جب پرویز مشرف کو گرفتار کیا جائے یا وہ خود عدالت میں پیش ہو جائیں۔

اس موقع پر اکرم شیخ نے توجہ دلائی کہ وفاقی حکومت پرویز مشرف کی جائیداد ضبط نہیں کرنا چاہتی لیکن شکایت اس حوالے سے داخل کی گئی جب انہوں نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کیا اور ایمرجنسی نافذ کردی۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر عدالت کوئی ہدایت جاری کرے گی تو حکومت، پرویز مشرف کی حوالگی کے لیے اقدامات اٹھائے گی اور عدالت وزارت داخلہ کو بھی ہدایت جاری کردے کہ پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ غیر فعال کردیا جائے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کا اب سیاست میں کوئی کردار نہیں بنتا، وسیم آفتاب

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بعض ایسے کیسز منظر عام پر بھی آئے جب حکومت نے کسی ملزم یا مجرم آفسر سے اس کو تفویض کردہ تمام اعزازت واپس طلب کرلیے۔

جب جسٹس یحیٰ آفریدی نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ سے وضاحت طلب کی کہ پرویز مشرف بیرون ملک کیوں گئے اور وفاقی حکومت انہیں واپس لانے میں کیوں ناکام رہی؟

اس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ دسمبر 2013 میں شکایت درج ہونے کے بعد خصوصی عدالت نے ملزم کی ضمانت منظور کی جس کے بعد تین مرتبہ کیس کی سماعت ہوئی جس میں ان کو گرفتار کرنے یا ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل کرنے کا معاملہ زیر غور لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ بعدازاں پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں تھا تاہم خصوصی عدالت نے انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت دی، دوسری جانب سپریم کورٹ نے ان کی گرفتاری کا معاملہ خصوصی عدالت اور وفاقی حکومت کے سپرد کردیا، ٹرائل کورٹ نے انہیں 31 مارچ 2016 کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا۔

ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے آگاہ کیا مختصر دورانیے میں ٹرائل کرنے کے بجائے خصوصی عدالت ایکٹ کے برخلاف خصوصی عدالت نے مہینوں سماعت ملتوی رکھی۔

دوسری جانب پرویز مشرف کے وکیل میجر (ر) اختر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل اپنے خلاف تمام کیسز کو نمٹانے کے لیے تیار ہیں لیکن عدالت ان کی سیکیورٹی کے لیے وزارت دفاع کو ہدایت جاری کرے اور انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت دے۔

جس پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے پرویز مشرف کے وکیل کو یاد دہانی کرائی کے پراسیکیوٹر پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ پرویز مشرف کی واپسی پر انہیں سابق صدر والا پروٹوکول ملے گا۔

جج نے واضح کیا کہ ایک مرتبہ پرویز مشرف خود ہی عدالت مین پیش ہو جائیں، ہم ان کے تمام مسائل کو سنے گے۔

جس کے بعد سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔


یہ خبر 9 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں