آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں اسے بلاشبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کا دور کہا جا سکتا ہے، محض 100 سال کے عرصے میں انسانی زندگی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹی فیشل انٹیلی جینس (مصنوعی ذہانت) نے ایک انقلاب برپا کردیا ہے، جس کا سہرا لا تعداد شخصیات کے سر ہے، مگر ان میں سے کچھ افراد ایسے بھی تھے، جو اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی بدولت تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔

صرف ایک صدی پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں سائنس کے افق پر فراق پیشانی، بڑی بڑی آنکھوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ ایک پر کشش شخص چھایا ہوا نظر آئے گا، جس کے ہاتھوں سائنس میں جدت طرازی اور تحقیق و تخلیق کا بنیادی ماحول اور ڈھانچہ تشکیل پایا، جس کے قوانین اور دریافتوں کی اب یعنی 100 سال بعد بھی جدید ترین ٹیکنالوجی سے تصدیق ہو رہی ہے۔

یقیناً وہ غیر معمولی ذہانت اور بے پناہ صلاحیتوں کا حامل سائنسدان 'البرٹ آئن اسٹائن' ہے، جس کا نام ہی ذہانت اور قابلیت کا استعارہ ہے۔

البرٹ آئن اسٹائن کی زندگی آغاز سے ہی غیر معمولی اور کسی کو سمجھ میں نہ آنے والی رہی ہے، ان کا جب جنم ہوا اور پھر جب تھوڑے بڑے ہوئے، تب سے ہی وہ سب کے لیے معمہ بنے ہوئے تھے، یہاں تک کے ان کے والدین بھی انہیں نہیں سمجھ پائے۔

کہتے ہیں کہ وہ بچپن سے ہی دنیا کو دوسرے زاویے سے دیکھتے تھے، اُن کی زندگی سے متعلق تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ کم عمری میں ایک دفعہ ہفتے بھر کے بخار کے باعث ان کے لئیےاز خود اُٹھ کر بیٹھنا بھی محال تھا،اسی وقت ان کے والد ہرمن کمرے میں داخل ہوئے، ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کمپاس تھا، البرٹ نے والد کے سہارے اُٹھ کر بمشکل کمپاس تھاما جس کی سوئیاں کسی پوشیدہ قوت کے زیر اثر حرکت میں تھیں، شدید بخار میں بھی البرٹ پر چند لمحوں کے لیے کپکپی طاری ہوگئی، اس کا وجدان کہتا تھا، ہو نہ ہو کمپاس کے گرد کوئی ایسی فیلڈ ہے جو اس کی سوئیوں کو متحرک کرنے کا باعث بنی ہے، یہ البرٹ آئن اسٹائن کی زندگی تبدیل کردینے والا لمحہ تھا۔

مقناطیسی فیلڈ سے تحریک پانے والا 19 ویں صدی کا یہ نامور سائنس دان اور ماہر طبیعات ساری زندگی روزمرہ استعمال کی اشیاء سے لے کر اجرام فلکی تک ہر کسی کے گرد مخفی فیلڈز پر اس استدلال کے ساتھ تحقیق کرتا رہا کہ ’اشیاء کی تفصیلات اور گہرائیوں میں بہت سی حقیقتیں پنہاں ہوتی ہیں، جنہیں کھوج کر دریافت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔‘

14 مارچ 1879 کو جنوبی جرمنی کے شہر الم میں واقع گاؤں 'سوابین' میں پیدا ہونے والے البرٹ آئن اسٹائن کے متعلق کوئی گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ بچہ مستقبل میں سائنس خصوصاً طبیعات جیسے مشکل مضمون میں انقلاب لانے کا باعث بنے گا۔

آئن اسٹائن وائلن بھی بہترین انداز میں بجاتے تھے—فوٹو: ڈبلیو کیو ایکس آر
آئن اسٹائن وائلن بھی بہترین انداز میں بجاتے تھے—فوٹو: ڈبلیو کیو ایکس آر

اُن کی نشونما بچپن ہی سے کافی سست روی کا شکار تھی، 2 سال کی عمر میں انہوں نے بمشکل ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولنا شروع کیا، اسکول میں بھی اُن کا شمار ایسے سست روی کا شکار بچوں میں کیا جاتا تھا، جو سیکھنے اور پڑھنے میں بہت وقت لگاتے ہیں، اُن کے لیے والدین ہی نہیں پورا خاندان متفق تھا کہ یہ بچہ بمشکل ہی کوئی ڈگری حاصل کرسکے گا، اگرچہ اس حوالے سے کافی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کی ایک بڑی وجہ بچپن کے متعلق آئن اسٹائن کے اپنے کچھ متنازع بیانات بھی ہیں، مگر ان کی وفات کے بعد منظر عام پر آنے والے ان کے دادا کے خطوط سے پتہ لگتا ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح چالاک اور ہوشیار تھے، مگر ابتداء میں انہیں بولنے میں دشواری کا سامنا ضرور رہا تھا۔

یہ عادت ساری عمر ان کے ساتھ رہی، جس کے باعث وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے اور اپنی بات کو 2 سے 3 مرتبہ دہرایا کرتے تھے، اس بارے میں خود آئن اسٹائن کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سوچ یا خیال اچانک ذہن میں وارد ہوکر انہیں بہت زیادہ متاثر کرتا تو وہ اسے بار بار دہراتے ہیں۔

بول کر سوچنے کے علاوہ اپنے خیالات کو وہ تصویر کی صورت میں بھی سوچا کرتا تھے، جس میں آسمانی بجلی کا چلتی ہوئی ٹرین سے ٹکراؤ اور نیچے کی جانب آتی ہوئی متحرک لفٹ سے گریویٹی اور فری فال کے تجربے کافی مشہور ہوئے۔

آئن اسٹائن کو ریاضی میں غیر معمولی صلاحیتیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھیں، وہ سلیبس میں درج اور اساتذہ کی پڑھائی کو حرفِ آخر سمجھنے والوں میں سے نہ تھا، ریاضی کی مساواتیں (Equations) اور جیومیٹری کی اشکال انہیں کائنات کے مخفی رازوں پر غور و فکر کرنے پر اکساتی تھیں، جسے اساتذہ عموماً کلاس میں غائب دماغی سمجھ کر ان کے والدین کو شکایت بھیج دیا کرتے تھے، مگر وہ انہیں قائل کرنے سے قاصر تھے کہ وہ محض ڈگری کے حصول سے آگے بڑھ کر کچھ غیرمعمولی کر دکھانے کا خواہش مند ہیں۔

صرف 15 برس کی عمر میں ریاضی کے پیچیدہ اصولوں اور کیلکولس میں مکمل مہارت حاصل کرنے کے بعد آئن اسٹائن کا دل اسکول، لگی بندھی روٹین اور فرسودہ سلیبس سے اُکتا چکا تھا، لہٰذا 1896ء میں وہ اپنی جرمن شہریت کو ترک کرکے زیورخ چلے گئے اور17 برس کی عمر میں 'سوئس فیڈرل پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ' میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے اسپیشلائزیشن کے لیے فزکس اور ریاضی کے مضامین کا انتخاب کیا، لیکن وہ ساری زندگی اس امر کے شدید مخالف رہے کہ خالص طبیعات کی تھیوریز کو ریاضی کے اصولوں کے ساتھ نتھی کیا جائے، آئن اسٹائن کا استدلال تھا کہ ایک کامیاب ماہر طبیعات کے لیے محض بنیادی ریاضی سے آگاہ ہونا ہی کافی ہے۔

آئن اسٹائن اپنی پہلی اہلیہ میلیوا کے ساتھ—فوٹو: سکسیس اسٹوریز
آئن اسٹائن اپنی پہلی اہلیہ میلیوا کے ساتھ—فوٹو: سکسیس اسٹوریز

آئن اسٹائن کی ذاتی زندگی ہمیشہ سے ہل چل کا شکار رہی، اُن کے والد اکثر ان سے ناراض رہتے تھے اور والدہ ان دونوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی جتنی کوششیں کرتیں وہ اتنی ہی بڑھتی چلی جاتی، اس مشکل وقت میں ان کی چھوٹی بہن کے علاوہ ان کی دوست 'میری 'نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، جس کے ساتھ زیورخ انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رہا، مگر اس تعلق میں اس وقت دراڑ آگئی جب آئن اسٹائن کی دلچسپی اپنی فزکس کی کلاس میں زیر تعلیم واحد طالبہ میلیوا میرک میں بڑھنے لگی۔

درحقیقت یہ ایک بے جوڑ تعلق تھا، آئن اسٹائن نہ صرف غیر معمولی حد تک ذہین تھے، بلکہ خوبرو بھی تھے، جبکہ میلیوا عام سی شکل و صورت اور جسمانی و نفسیاتی عوارض کا شکار ایک بے انتہا سنجیدہ اور خشک مزاج لڑکی تھی، جو عمر میں بھی ان سے 3 سال بڑی تھی، بچپن سے اپنی معذوری کے باعث مذاق کا نشانہ بننے والی میلیوا کے دل میں صنف مخالف کے لیے نفرت ہی نفرت تھی۔

آئن اسٹائن کئی برس تک نفرت کی اس دیوار کو گرانے کی سعی کرتے رہے، دوسری جانب میلیوا، اس کے جذبوں کی شدت اور خود اپنے دل میں امڈ آنے والے نرم گوشوں سے اس قدر خوفزدہ تھی کہ وہ زیورخ انسٹی ٹیوٹ چھوڑ کر ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی چلی گئی، مگر البرٹ اسے مستقل خط لکھ کر اپنی محبت کا یقین دلاتے رہے، بالآخر نفرت کی شکست ہوئی اور وہ دونوں ہمیشہ کے لیے ایک ہوگئے، ان کے 3 بچے ہوئے جن میں ایک بیٹی اور 2 بیٹے شامل تھے، شادی کے بعد ایک عورت کا ساتھ ملنے کی وجہ سے البرٹ کی زندگی میں استحکام آیا اور وہ پہلے سے زیادہ آسودگی و یکسوئی کے ساتھ کائنات کے سر بستہ رازوں اور طبیعات کے اصولوں پر غور و فکر کرنے لگے۔

اگرچہ میلیوا جسمانی نقائص کا شکار ایک سنجیدہ مزاج عورت تھی، مگر اس کی ذہانت اور فزکس و سائنس میں غیر معمولی دلچسپی اسے عام خواتین سے ممتاز بناتی تھی، بلاشبہ میلیوا نے اپنی بے لوث محبت، خوبصورت حس مزاح، جذباتی پختگی اور ذہانت سے آئن اسٹائن کے گرد اس قدر مضبوط فیلڈ قائم کی، جسے وہ تاعمر توڑنے سے قاصر رہے، اور کچھ عرصے بعد طلاق کے باوجود بھی ان کی دوستی برقرار رہی، وہ بیک وقت ان کی غم گسار ساتھی بھی تھی، محبوب بیوی اور تحقیقات میں معاون سے بڑھ کر وہ ان کی سب سے بڑی نقاد تھی۔

آئن اسٹائن اپنی دوسری اہلیہ ایلسا کے ساتھ—فوٹو: سکسیس اسٹوریز
آئن اسٹائن اپنی دوسری اہلیہ ایلسا کے ساتھ—فوٹو: سکسیس اسٹوریز

اگرچہ آئن اسٹائن کی ذہانت اور غیر معمولی ادراک قدرت کی جانب سے عطا کردہ تھا، مگر دیکھا جائے تو ان کی غیر معمولی کامیابیوں میں میلیوا اور موسیقی کا اثر کافی گہرا رہا، البرٹ جوانی سے ہی بہت اچھا وائلن بجایے کرتے تھے، یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ان کا جنون بنتا گیا، زیورخ میں دورانِ تعلیم وہ سوزین مارک ویلڈر کی والدہ سے باقاعدگی سے موسیقی کی تربیت لیا کرتا، جو پیانو بجایا کرتی تھیں، وہ بیتھووین کا بھی مداح تھے، مگر موزارٹ اور بیچ کی آفاقی دھنیں اسے زمان و مکاں کی حدوں سے بے نیاز کردیا کرتی تھیں۔

1901 میں زیورخ انسٹی ٹیوٹ سے گریجویشن کے بعد البرٹ نے کچھ عرصے سوئس پیٹنٹ کے دفتر میں بحیثیت کلرک کام کیا، 1905ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اسی برس 'روشنی سے ہونے والے برقیاتی اثرات '(پولارائزڈ لائٹ) براؤنین موشن (مالیکیولز کی بے ترتیب حرکت) اور نظریۂ اضافیت پراس کے مقالات بھی شائع ہوئے۔

اگرچہ ابتداء میں انہیں اپنی تحقیقات خصوصاً نظریۂ اضافیت پر کافی تنقید و مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اور ان کا موازنہ براہ راست نیوٹن کے قوانین سے کیا گیا جو نسبتاً عام فہم تھے، مگر کچھ تضادات کا شکار تھے، جبکہ آئن اسٹائن کے خیالات پیچیدہ اور گنجلک تھے۔ جو بعد میں طبیعات کی ایک نئی شاخ 'کوانٹم فزکس' کی بنیاد رکھنے کا سبب بنے، درحقیقت ڈارون کے بعد آئن اسٹائن وہ سائنسدان تھے، جنہیں ہر دور میں شدید لعن طعن کا سامنا رہا مگر دراصل ان کے یہی نظریات انہیں دنیا کا ایک ذہین ترین انسان اور ایک کامیاب ماہر طبیعات بنانے کا سبب بنے۔

بے پناہ تنقید کے باوجود صرف 2 برس کے قلیل عرصے میں وہ بنیادی نظریۂ اضافیت پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے اور یہیں سے ان کی کامیابیوں کے سفر کا آغاز ہوا، جس کے بعد اس نامور سائنسدان نے پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا، جلد ہی انہیں کیرولیم انسٹی ٹیوٹ میں ڈائریکٹر کی ملازمت حاصل ہوگئی، 1919ء میں سورج گرہن کے دوران مشاہدات کرتے ہوئے سر آرتھر یڈنگٹن نے نظریۂ اضافیت کی تصدیق کی، جبکہ 2016ء میں جدید ترین ٹیکنالوجی ’لیگو‘ کے ذریعے آئن اسٹائن کی گریوی ٹیشنل ویوز (ثقلی موجوں) کی 100 سال بعد باقاعدہ تصدیق کی جاچکی ہے، جو اس امر کا ثبوت بھی ہے کہ البرٹ آئن اسٹائن کا وجدان اور اشیاء کی گہرائیوں میں اتر جانے کی صلاحیت کتنی غیر معمولی تھی۔

1921ء میں آئن اسٹائن کو تھیوریٹیکل فزکس میں قابل ذکر تحقیق پر نوبل پرائز دیا گیا تو انہوں نے اپنے انعام کی رقم اپنی بیوی میلیوا کے نام کرکے طلاق حاصل کرلی، زندگی کے مختلف ادوار میں بہت سی عورتیں ان کی ساتھی رہیں، مگر جو دیرپا اور گہرا اثر میلیوا نے ان کی شخصیت پر ڈالا تھا اس کی بدولت وہ مرتے وقت تک اس کے معترف بھی رہے اور مشکور بھی، وہ ساری زندگی قدرت کے شاہکاروں کے پوشیدہ قفل کھولنے کی سعی کرتے رہے، چاہے وہ مقناطیسی فیلڈ ہو یا اجرام فلکی کی مضبوط کشش ثقل، اشیاء کا جمود ہو یا گردشی اثر، روشنی کی شعائیں ہوں یا ثقلی موجیں، ہر شے انہیں اپنے سحر میں جکڑتی گئیں اور وہ ایک جنون میں ان ناممکنات پر غور کرتا گیا جو عام آدمی کے ذہنی سطح سے ماورا تھیں۔

آئن اسٹائن کا ذاتی وائلن —فوٹو: ڈبلیو کیو ایکس آر
آئن اسٹائن کا ذاتی وائلن —فوٹو: ڈبلیو کیو ایکس آر

ان کی ذات بلاشبہ کئی نادر خوبیوں کا مرکب تھی، غیر معمولی ذہانت کے باوجود اس میں گھمنڈ یا غرور نام کی کوئی چیز نہ تھی، وہ ایک دردمند دل رکھنے والا غم گسار شخص تھے، جو سائنس کے علاوہ سیاسی امور پر بھی بے لاگ تبصرہ کیے کرتے تھے، اسی وجہ سے ہٹلر کے جرمنی میں بر سر اقتدار آتے ہی ان کا ادارہ بھی زیر عتاب آگیا، جس کے بعد 1933ء میں وہ پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز نیو جرسی منتقل ہوگئے، جہاں بعد ازاں 1940ء میں انہیں امریکی شہریت بھی حاصل ہوگئی۔

آئن اسٹائن کو امریکا کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک متنازع شخصیت سمجھا جاتا ہے، اگرچہ وہ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کا زبردست حامی تھے اور مستقبل میں اس سے ہونے والی ہولناکیوں کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے البرٹ نے اس وقت کے امریکی صدر روز ویلٹ کو خط بھی لکھا جو اب تک ریکارڈ پر موجود ہے، مگر آئن اسٹائن کو ایٹم بم پراجیکٹ میں اس لیے ملوث کیا جاتا رہا کیونکہ ایک تو یہ ان کا اپنا شروع کیا گیا منصوبہ تھا، دوسرا یہ کہ تھیوریٹیکلی بم کی تخلیق آئن اسٹائن کی مشہو ر زمانہ 'کمیت اور توانائی' کی مساوات کے ذریعے ہی ممکن ہوسکی تھی۔

آئن اسٹائن جس شان اور وقار سے زندہ رہے، مرنے کے لیے بھی انہوں نے ویسا ہی باعزت طریقہ اختیار کیا، 17 اپریل 1955 کو انہیں سینے میں تکلیف کے باعث ہسپتال داخل کیا گیا اور ڈاکٹرز ان کی سرجری کے لیے پوری طرح مستعد تھے، مگر انہوں نے یہ کہہ کر سرجری کروانے سے انکار کردیا کہ وہ اپنی زندگی جی چکے ہیں اور اب آسودگی اور رضامندی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجانا چاہتے ہیں، اگلے ہی روز 18 اپریل کو یہ نامور سائنسدان دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوا کہ اُن کی رائٹنگ ٹیبل پر بے شمار لکھے اور ادھ لکھے کاغذات کا ڈھیر تھا، جن پر وہ آخری سانس تک کوانٹم فزکس کی مساواتیں لکھ کر کائنات کے عقدے حل کرتا رہا۔

آئن اسٹائن کی وصیت کے مطابق ان کی میت کو جلا کر ان کی راکھ کسی نامعلوم مقام پر بکھیر دی گئی، جو آج تک ایک معمہ ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا مزار بنا کر آنے والی نسلیں وہاں عقیدت کے پھول نچھاور کرتی رہیں، بے شک فانی انسانوں کو جشن مسرت منانا چاہیے کہ البرٹ آئن اسٹائن جیسا زیرک، ذہین اور عظیم شخص نوع انسانی کو میسر آیا، جنہوں نے زندگی کا ہر لمحہ کائنات کے سربستہ رازوں کی گتھیاں سلجھانے میں بسر کیا اور دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی ایک عالم اس کے علم سے مستفید ہورہا ہے۔

آئن اسٹائن کی بچپن میں اپنی بہن کے ساتھ لی گئی نایاب تصویر—فوٹو: سکسیس اسٹوریز
آئن اسٹائن کی بچپن میں اپنی بہن کے ساتھ لی گئی نایاب تصویر—فوٹو: سکسیس اسٹوریز

تبصرے (3) بند ہیں

mUHAMMAD ASIF KHURSHID Mar 14, 2018 03:28pm
Very nice article. appreciated. kind regard.
KHAN Mar 14, 2018 05:33pm
تھینک یو صادقہ خان! آپ نے تو بہت خوبصورت مضمون لکھا مگر ہم صرف آپ کا شکریہ ہی ادا کرسکتے ہیں۔
eMRAN Mar 14, 2018 07:51pm
We should proud also to have a man like Dr. Abdul Salam.