اسلام آباد: ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر جواد ظریف نے پاکستان کو ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کے منصوبے اور اسے گوادر سے جوڑنے کے لیے ترقیاتی کام میں شمولیت کی پیشکش کردی۔

پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شمولیت پر رضا مندی کا اظہار کیا اور ہم پاکستان اور چین کو چاہ بہار بندرگاہ میں شمولیت کی پیش کش کرتے ہیں‘۔

اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز (آئی ایس آئی ایس) میں پاک-ایران سفارتی تعلقات کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چاہ بہار بندر گاہ کا منصوبہ پاکستان کو مشکلات میں دوچار کرنے کے لیے نہیں، ایران اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور اسی طرح پاکستان بھی اپنی سرزمین ایران مخالف عناصر کو فراہم نہیں کرے گا۔

ڈاکٹر جواد ظریف نے تیسری مرتبہ واضح کیا ہے کہ ’چاہ بہار بندر گاہ میں شمولیت کے لیے پاکستان کو کھلی پیشکش ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایران-بھارت تعلقات سے پاکستان کو خطرہ نہیں بالکل اس طرح جیسے پاک-سعودیہ تعلقات سے ایران اپنے لیے خطرہ محسوس نہیں کرتا‘۔

اس موقع پر ڈاکٹر جواد ظریف نے دونوں ممالک کے مابین بہتر تعلقات سے متعلق امور پر بات کی جس میں پاک-ایران گیس پائپ لائن منصوبہ، دوطرفہ بینکنگ تعلقات کے قیام، فری ٹریڈ معاہدے اور گوادر اور چاہ بہار بندر گاہ کے حوالے سے معاملات شامل تھے۔

خیال رہے کہ دو طرفہ تجارت کو بڑھانے کے لیے بینکنگ تعلقات اہم تصور کیے جاتے ہیں، جو اس وقت 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کے ہیں جبکہ انہیں آئندہ کچھ سالوں میں 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ٹارگٹ ہے لیکن باقاعدہ بینکنگ چینلز کی غیر موجودگی میں اس ٹارگٹ کا حصول کافی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

واضح رہے کہ اسٹیکٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے گزشتہ برس اپریل میں ایران کے مرکزی بینک کے ساتھ بینکنگ اور پیمنٹ معاہدے (بی پی اے) پر دستخط کیے گئے تھے، جس کے تحت بینک مرکزی جمہوری اسلامی ایران (بی ایم جے آئی آئی) دو طرفہ تجارت کے فروغ کے لیے تجارتی حل کا نظام پیش کرے گا۔

اس کے ساتھ دونوں ممالک کے مرکزی بینک بی پی اے کے تحت ٹرانزیکشن کے لیے تجارتی بینکوں کو دعوت دی گئی تھی لیکن پاکستانی بینکوں کی عدم دلچسپی کے باعث کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

مالی سال 16-2017 کے اوائل کے 9 ماہ میں پاکستان نے 2 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی اشیاء ایران کو برآمد کیں جبکہ اس کے برعکس ایران سے صرف 54 ہزار ڈالرز کی اشیاء پاکستان نے درآمد کیں۔

اس سے قبل ڈاکٹر ظریف نے اپنے پاکستانی ہم منصب خواجہ آصف سے وزارت خارجہ کے دفتر میں تجارتی کانفرنس سے خطاب میں دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔

خیال ہے کہ ایران نے بھارت کو چاہ بہار بندر گاہ 18 ماہ کے لیے لیز پر دیتے ہوئے اس کے ایک حصے کا آپریشنل کنٹرول بھی سپرد کیا جس پر پاکستان کو تشویش ہے۔


یہ خبر 13 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں