لیاری کے علی محمد محلہ میں رینجرز آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے مبینہ دہشت گرد کے اہل خانہ نے ان کے ذہنی معذور ہونے کا دعویٰ کردیا۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ذہنی معذور شخص کے اہلخانہ کا کہنا تھا کہ ذہنی معذور شخص کا مجرمانہ کارروائیوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سندھ رینجرز کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق لیاری میں رینجرز کی معمول کی گشت کے دوران دہشت گردوں نے دستی بموں اور خودکار ہتھیاروں سے حملہ کردیا تھا۔

حملے کے فوری بعد رینجرز اہلکاروں نے علاقے میں سرچ آپریشن کا آغاز کردیا تھا جس میں رینجرز کا سپاہی دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوگیا تھا۔

رینجرز کے ترجمان کے مطابق گولیوں کے تبادلے میں 4 مزید دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔

رینجرز کی جوابی کارروائی میں مرنے والوں میں چاکر علی بھی شامل تھا۔

رینجرز نے دعویٰ کیا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مختلف جرائم میں مطلوب تھا۔

تاہم چاکر علی کے چچا رسول بخش نے کہا کہ ہلاک ہونے والا شخص ذہنی طور پر معذور اور وہ لیاری کے جنرل ہسپتال میں زیر علاج تھا۔

انہوں نے گزارش کی کہ چاکر علی کے بے رحمانہ قتل پر اسے انصاف دیا جائے اور واقعے پر تحقیقات کرکے سچائی کو بے نقاب کیا جائے۔

ان کے مطابق چاکر علی شام کے 7 بجے کے قریب گھر سے نکلا تھا جس کے بعد اسے مارا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر عوام کی بڑی تعداد نے چاکر علی کی ذہنی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے جعلی انکاؤنٹر میں ہلاک کرنے پر سوالات اٹھائے۔

خیال رہے کہ گولیوں سے ہلاک ہونے والا ایک اور مبینہ دہشت گرد مہر علی سوشل میڈیا پر عوام کے مطابق 3 ماہ سے لاپتہ تھا۔

سیکیورٹی حکام نے دعوے مسترد کردیے

پولیس اور رینجرز حکام نے چاکر علی کے خاندان کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والا شخص دہشت گرد تھا۔

رینجرز کے ترجمان نے چاکر علی کے اہل خانہ کا اسے ذہنی معذور بتانے کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا فوج اسے دہشت گرد مانتی ہے۔

علاوہ ازیں سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس شیراز نذیر نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چاکر علی ذہنی معذور نہیں نشے کا عادی تھا۔

انہوں نے کہا کہ چاکر علی کا تعلق گینگ وار سے تھا اور اس کا بھائی شہزاد بھی پولیس کو متعدد کیسز میں مطلوب ہے۔

ایس ایس پی نذیر کے مطابق پولیس کا ماننا ہے کہ رینجرز اہلکاروں کو نشانہ بنانے والے ملزمان کا تعلق لیاری کے غفار ذکری گینگ سے تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں