پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے ڈیرہ اسماعیل خان کی پولیس کو لڑکی کو برہنہ کرنے کے کیس میں مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے اور پروگریس رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

ہائی کورٹ کے ججز جسٹس روح الامین چمکانی اور جسٹس اکرام اللہ خان کو ڈی آئی خان کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل آف پولیس کریم خان نے بتایا کہ پولیس نے مرکزی ملزم سجاول کو گرفتار کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

عدالت نے سماعت کو 26 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے ڈی آئی جی کو پروگریس رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

خیال رہے کہ 22 نومبر کو چیف جسٹس کی صدارت میں ہائی کورٹ کے بینچ نے برہنہ کیے جانے والی مبینہ متاثرہ لڑکی کی جانب سے دائر پٹیشن کو انسپیکٹر جنرل پولیس کو رپورٹ کو پشاور ہائی کورٹ کے انسانی حقوق کے سیک میں جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے خارج کردیا تھا۔

پٹیشن میں لڑکی نے عدالت سے تحفظ، مقامی فرد کی جانب سے بنائے جانے والی ان کی برہنہ فلم کی بازیابی اور مرکزی ملزم سجاول کی گرفتاری کی درخواست کی تھی۔

ڈی آئی جی کریم خان کا کہنا تھا کہ پولیس کی درخواست کہ وزارت داخلہ نے سجاول کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا ہے اور اس کا قومی شناختی کارڈ بلاک کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے سجاول کے رشتہ داروں کے خلاف بھی پانچ ایف آئی آر درج کی ہیں جو ملزم کے جرم میں سہولت کار کا کام کر رہے تھے۔

عدالت نے پولیس سے ملزم کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے ایئرپورٹس سے رجوع کرنے کا بھی کہا تھا۔

تاہم ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ملزم نے اپنا پاسپورٹ نہیں بنوایا تھا جس کی وجہ سے وہ قانونی طریقے سے ملک چھوڑ کر نہیں جا سکتا ہے۔

متاثرہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ کی جانب سے ویڈیو بنانے والے مقامی رہائشی رحمت اللہ پر لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے دوران اب تک یہ الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ لڑکی نے دعویٰ کیا تھا کہ دو سال قبل سجاول نے اس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے سجاول کے اہل خانہ کو موبائیل فون دیا ہے۔

متاثرہ لڑکی کے بھائی کی جانب سے حلفاً انکار کے باوجود پنجایت نے اس کے بھائی کو 3 لاکھ روپے جرمانہ دینے کا حکم دیا تھا۔

متاثرہ لڑکی نے مزید بتایا کہ پنچایت کے فیصلے کے باوجود ملزم سجاول نے اسے پورے گاؤں میں برہنہ کر کے گھمایا۔

یہ خبر 21 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں