پاکستان سپر لیگ کا ایک اور کامیاب اور یادگار سیزن اپنے اختتام کے قریب ہے۔ فائنل کے لیے کراچی تو مکمل طور پر تیار ہے لیکن یہاں کراچی کنگز نہیں ہیں کیونکہ فائنل تک وہیں پہنچے ہیں جو اصل میں حقدار تھے، یعنی اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی!

2 ایسی ٹیمیں جنہیں ابتداء میں کوئی خاطر میں نہیں لا رہا تھا، اپنی مستقل مزاجی، بُلند حوصلوں اور عمدہ کارکردگی کی بدولت حتمی معرکے تک پہنچ گئی ہیں۔ اب جو بھی ٹیم چیمپیئن بنی وہ پی ایس ایل تاریخ میں دوسری بار یہ اعزاز حاصل کرے گی۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے پہلے سیزن میں کامیابی حاصل کی تھی جبکہ دوسری بار خوبصورت ’اسپرٹ ٹرافی‘ پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی نے اٹھائی تھی۔

اس مقام تک پہنچنے کے لیے اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی دونوں کے سفر کا آغاز اتنا اچھا نہیں تھا۔ بالخصوص جب ابتدائی مقابلوں میں کراچی کنگز اور ملتان سلطانز نے شاندار کامیابیاں حاصل کیں تو سب کی نظریں اُن کی طرف چلی گئیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ نے ابتدائی مقابلے اپنے کپتان مصباح الحق کے بغیر کھیلے جبکہ شاہد آفریدی کے جانے کے بعد پشاور زلمی نے رفتار پکڑنے میں خاصا وقت لیا۔

پہلے کچھ بات اسلام آباد کو درپیش مراحل کی۔ یونائیٹڈ نے جب سیزن کا آغاز کیا تو کپتان مصباح الحق مکمل فٹ نہیں تھے اور ابتدائی چند میچز نہيں کھیلے۔ ان کی جگہ قیادت کی ذمہ داری نوجوان رمّان رئیس کے نازک کندھوں پر ڈالی گئی اور انہوں نے اسے بخوبی نبھایا بھی لیکن اسلام آباد کو جیسے آغاز کی ضرورت تھی وہ میسر نہیں آسکا، یہاں تک کہ ایک میچ کے دوران فیلڈنگ کرتے ہوئے رمّان خود زخمی ہوئے اور پورے سیزن سے ہی باہر ہوگئے۔

پڑھیے: کامران اکمل، پی ایس ایل میں دوسرا جنم!

جنوبی افریقہ کے جے پی دومنی آئے تو مصباح الحق کو ایک سہارا مل گیا۔ چند کامیابیوں کے ذریعے حوصلے بحال کیے ہی تھے کہ اہم ترین کھلاڑی آندرے رسل زخمی ہوگئے۔ لاہور قلندرز کے خلاف یادگار کامیابی میں جو کردار رسل نے ادا کیا تھا، اور پہلے سیزن میں اسلام آباد کو چیمپیئن بنوانے میں بھی جو کارکردگی رسل کی رہی تھی، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ رسل کے جانے سے اسلام آباد کو کتنا دھچکا پہنچا ہوگا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب وہ سنبھل نہیں پائیں گے لیکن حیرت کی بات ہے کہ مصباح الحق نے ان کے جانے کے بعد آخر تک کوئی مقابلہ نہیں ہارا۔

لاہور قلندرز کے خلاف ’سپر اوور‘ میں حاصل کردہ کامیابی کے بعد مسلسل میچز میں کراچی، لاہور، پشاور، ملتان اور کوئٹہ کو شکست دی، یعنی پے در پے 5 کامیابیاں۔ یہ سب بہت ہی جامع فتوحات تھیں جیسا کہ کراچی کنگز کے خلاف اسلام آباد نے 8 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی پھر لاہور قلندرز کو 6 وکٹوں سے ہرایا۔

یہی نہیں بلکہ پشاور زلمی کے خلاف 182 رنز بنا کر 26 رنز سے کامیابی حاصل کی جبکہ ملتان سلطانز کو 33 رنز کے واضح مارجن سے شکست دی۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف اہم مقابلہ اسلام آباد نے 6 وکٹوں سے جیتا اور یوں مسلسل 5 فتوحات کے ساتھ پوائنٹس ٹیبل پر سرِفہرست پوزیشن یقینی بنالی۔ اس کے بعد پہلے مرحلے کے آخری میچ میں اسلام آباد نے لیوک رونکی سمیت اہم کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیا، شاید یہی وجہ تھی کہ کراچی کنگز یہ میچ جیت گیا لیکن پلے آف میں وہ اسلام آباد کی خاک کو بھی نہ پکڑسکا۔

کوالیفائر میں اسلام آباد نے کراچی کی جانب سے دیا گیا 155 رنز کا ہدف صرف اور صرف 12.3 اوورز میں حاصل کرلیا، وہ بھی محض 2 وکٹوں کے نقصان پر۔ یہ جاندار کارکردگی ظاہر کرتی ہے کہ اسلام آباد نے کس طرح حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ قدم آگے بڑھائے اور ابتدائی دھچکوں کو سہنے کے بعد محض ’دماغ‘ سے اپنے حریفوں کو شکست دی ہے۔

انفرادی سطح پر بھی دیکھیں تو اسلام آباد کے کھلاڑی بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ رنز بنانے والوں میں لیوک رونکی تیسرے نمبر پر ہیں جنہوں نے 10 میچز میں 383 رنز بنائے ہیں۔ ٹاپ 10 بلے بازوں میں اُن کا اوسط بھی سب سے زیادہ ہے اور اسٹرائیک ریٹ بھی۔ 42.55 کے ایوریج اور لگ بھگ 180 کے اسٹرائیک ریٹ سے بنائے گئے رنز ثابت کرتے ہیں کہ وکٹ کیپر بیٹسمین کے لیے یہ سیزن کتنا جاندار رہا ہے۔ پھر باؤلرز پر نگاہ ڈالیں تو فہیم اشرف سب سے اوپر نظر آتے ہیں جنہوں نے 17 وکٹیں حاصل کیں۔ یعنی کھیل کے دونوں اہم ترین شعبوں میں ہمیں اسلام آباد کے کھلاڑی نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔

پڑھیے: 'جو پاکستان آئے، اسی کھلاڑی کو پی ایس ایل کا حصہ بنائیں'

کچھ ایسی ہی داستان پشاور زلمی کی بھی ہے، بلکہ اس میں تو کچھ زیادہ ہی ڈرامائی موڑ ہیں۔ زلمی نے پچھلے سال چیمپیئن بننے کے بعد شاہد آفریدی کو ’ریلیز‘ کردیا تھا، جو تیسرا سیزن کراچی کنگز کی طرف سے کھیلے۔ یہ فیصلہ ایسا تھا جس کے نتیجے میں پشاور زلمی کی ’فین بیس‘ میں یقیناً کمی واقعی ہوئی ہوگی، لیکن ’سیمی الیون‘ نے پی ایس ایل 3 میں اپنی شاندار کارکردگی سے سب روٹھے ہوئے شائقین کو منا لیا ہے۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد یہی چاہتی ہے کہ ایک مرتبہ پھر زلمی ہی چیمپیئن بنے اور اس کی ایک جھلک ہم لاہور میں کھیلے گئے دونوں میچز میں دیکھ چکے ہیں۔

پشاور زلمی کو بھی سیزن کے آغاز پر کئی دھچکے سہنے پڑے۔ انہوں نے ڈرافٹ میں آئیکون پلیئر کے طور پر جس کھلاڑی کا انتخاب کیا، اس نے پورے سیزن میں اپنی جھلک تک نہیں دکھائی۔ ڈیوین براوو انڈین پریمیئر لیگ کا سیزن کھیلنے تو مہینہ بھر پہلے بھارت پہنچ گئے لیکن انجری کا کہہ کر پی ایس ایل میں شریک نہیں ہوئے۔

حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے، لیکن اُن کا یہ فیصلہ پشاور کو بہت بھاری پڑسکتا تھا۔ لیکن 'عشق کے امتحاں اور بھی' تھے۔ اہم ترین آل راؤنڈر شکیب الحسن بھی زخمی ہوگئے اور جب صحت یاب ہوئے تو قومی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے انہيں بنگلہ دیش سے طلب کرلیا۔ سری لنکا میں کھیلے گئے سہ فریقی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ نے اور کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہوگا لیکن پشاور زلمی کو بہت پریشان کیا۔ اِن فارم اوپنر تمیم اقبال اور مڈل آرڈر بیٹسمین شبیر رحمان دونوں کو پی ایس ایل سیزن چھوڑ کر قومی ٹیم میں شمولیت اختیار کرنی پڑی۔

بات یہاں بھی نہیں رکتی، بلکہ اِس وقت پشاور کے اہم ترین کھلاڑیوں میں سے ایک حسن علی ابتدائی کئی میچز تک پشاور کو انجری کے سبب میسر نہیں تھے، پھر دوران ٹورنامنٹ کئی ٹیموں کو نئے کھلاڑی ملے، جیسے اسلام آباد یونائیٹڈ کو جے پی ڈومنی، ایلکس ہیلز، سیم بلنگز کا ساتھ ملا، کراچی کنگز کو ایون مورگن اور کوئٹہ کو جیسن روئے کا، مگر پشاور کے ستارے یہاں بھی گردش میں رہے اور اِس ٹیم کو کوئی نیا کھلاڑی نہیں ملا جو مسائل میں کمی کا سبب بن سکے۔

پڑھیے: 'پی ایس ایل میچز کے کامیاب انعقاد کا کریڈٹ قوم کو جاتا ہے'

اب تصور کیجیے دونوں اہم ترین آل راؤنڈرز نہیں، اِن فارم اوپنر غائب اور کپتان زخمی ہے اور ٹیم ابتدائی میچز میں اونی پونی کامیابیوں کے بعد مسلسل 3 میچز میں شکست کھا گئی ہے۔ پشاور زلمی کو سیزن میں اپنے چھٹے، ساتویں اور آٹھویں مقابلوں میں بالترتیب ملتان سلطانز، اسلام آباد یونائیٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ہاتھوں مایوس کن شکستیں سہنی پڑیں جن کے بعد ضروری ہوگیا کہ پشاور اپنے آخری دونوں مقابلوں میں کراچی اور لاہور کو شکست دے، ورنہ واپسی کا ٹکٹ پکڑے۔

اس اہم مرحلے پر کپتان ڈیرن سیمی خود بھی زخمی تھے اور اُنہیں میدان میں ہی لنگڑاتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا لیکن یہ اُن کا جذبہ تھا جو اُنہیں میدان میں اتارتا اور یہی وجہ تھی کہ پشاور نے آخری دونوں مقابلوں میں کامیابی حاصل کی اور یوں ایلی منیٹرز میں جگہ پا لی۔

دفاعی چیمپيئن نے یہاں پی ایس ایل کا سب سے زبردست مقابلہ کھیلا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف ناک آؤٹ مقابلے میں آخری اوور میں انور علی کے ’بلّا چارج‘ کا سامنا کیا اور شکست سے بال بال بچے۔ صرف ایک رن سے حاصل کردہ کامیابی نے حوصلے بڑھائے اور لاہور میں ’زلمی، زلمی‘ کے نعروں میں کراچی کنگز کو چِت کرکے فائنل میں پہنچ گئے۔

پشاور نے مسلسل 4 فتوحات کے ساتھ فائنل تک رسائی حاصل کی ہے اور اب کھیلے گئے مقابلوں میں سب سے نمایاں کارکردگی کامران اکمل کی ہے۔ 37 سالہ وکٹ کیپر کی کارکردگی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جنہوں نے رواں سیزن میں اب تک 42 سے زیادہ کی اوسط اور 158 کے اسٹرائیک ریٹ سے 424 رنز بنائے ہیں۔ اس میں سیزن کی واحد سنچری بھی شامل ہے اور 4 نصف سنچریاں بھی۔ ان کے علاوہ وہاب ریاض سے لے کر عمید آصف تک، باؤلرز نے بھی اپنا عمدہ حصہ ڈالا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پشاور کا فائنل تک پہنچنا ایک مکمل ’team effort‘ ہے۔

پچھلے سیزن میں اسلام آباد یونائیٹڈ کا نعرہ رہا ہے ’دماغ سے‘، جبکہ اس مرتبہ پشاور ٹیم کھیلی ہے ’دل سے‘، اب دیکھنا یہ ہے کہ دل و دماغ کی اس جنگ میں کامیابی کسے نصیب ہوتی ہے اور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں طویل عرصے بعد ہونے والا کوئی اہم مقابلہ کس کے لیے خوش قسمت ثابت ہوتا ہے۔ فاتح چاہے ڈیرن سیمی ہو یا مصباح الحق، ہمیں خوشی تو ہوگی لیکن ساتھ ہی ہارنے والے کا غم بھی ہوگا کیونکہ دونوں ہی اس اعزاز کے حقدار لگتے ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

رمضان رفیق Mar 25, 2018 02:05am
بہت خوبصورت تجزیہ ہے، ہم ایسے کرکٹ نیوٹرل لوگوں کو بھی پتہ چلا کہ ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔خوش رہیں
Siraj Khan Mar 25, 2018 08:35am
Excellent and unbiased capture of how the two teams reached the final.