کراچی : شہر قائد میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے 27 سالہ نقیب اللہ محسود کے نوجوان دوست منال خان کو قتل کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ نوجوان منال خان کو گلشن بنیر میں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی گاڑی میں جارہا تھا اور فائرنگ کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔

اس بارے میں سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ( ایس ایس پی ) سٹی عدیل حسین کا کہنا تھا کہ واقعہ 2 کروڑ روپے سے زائد کے مالیاتی تنازع کا تھا، جس کی وجہ سے نوجوان منال خان کو نشانہ بنایا گیا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

انہوں نے کہا کہ مقتول ٹرک کا کاروبار کرتا تھا اور اس کا تعلق محسود قبائل سے تھا جبکہ ملزمان بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔

دوسری جانب نقیب اللہ محسود قتل کیس میں تفتیش کرنے والے ایس ایس پی انویسٹیگیشن عابد قائم خانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک شادی کی تصویر میں مقتول نوجوان کو نقیب اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔

تاہم عابد قائم خانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ مرنے والا نوجوان نقیب اللہ قتل کیس کی پیروی کرنے میں متحرک تھا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل نقیب اللہ قتل کے حوالے سے محسود قبائل کے دھرنے میں متحرک نوجوان آفتاب محسود پر اسرار طور پر قتل ہوگیا تھا اور ڈیرہ اسماعیل خان میں نقشبند ٹاؤن میں ایک زیرِ تعمیر گھر سے نوجوان کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی تھی۔

نقیب اللہ قتل

یاد رہے کہ جنوری 2018 میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد گرفتار

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں اس واقعے پر احتجاج کے بعد راؤ انوار کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھی اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا اور تمام خفیہ اداروں کو پولیس سے تعاون کرنے کا حکم دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں