کراچی: سندھ کے محکمہ سماجی بہبود نے کہا ہے کہ صوبے میں ایک سال سے تقریباً آدھے سے زیادہ غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) غیر فعال ہیں، جس کے باعث ان میں سے زیادہ تر کو حکومت نے ڈی لسٹڈ کردیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر برائے سماجی بہبود شمیم ممتاز نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’سندھ میں نئی این جی اوز کی رجسٹریشن پر پابندی ہے اور حکومت کی جانب سے یہ پابندی اپیکس کمیٹی کی سفارشات پر لگائی گئی تھی تاکہ ملک کی سیکیورٹی صورتحال کو فول پروف بنایا جاسکے‘۔

انہوں نے بتایا کہ اس پابندی کے ساتھ ہی ایک سال سے ہم ان این جی اوز کی تفصیلات حاصل کرنے میں مصروف تھے جو پہلے سے رجسٹر ہیں اور جب ہم نے ان کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ سندھ میں 8 ہزار سے زائد این جی اوز رجسٹر ہیں جبکہ ان میں سے کم از کم ساڑھے 4 ہزار کسی شعبے میں کوئی کام نہیں کر رہیں۔

مزید پڑھیں: ممنوعہ غیرملکی این جی اوز کو حتمی فیصلےتک سرگرمیاں جاری رکھنےکی اجازت

انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی ہم نے ان این جی اوز کے ارد گرد کی معلومات حاصل کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ان تنظیموں میں سے بڑی تعداد نے اپنی اصل انتظامیہ کو کسی اور کے حوالے کردیا اور اس سلسلے میں نہ تو ہمیں اطلاع دی گئی نہ کوئی اجازت لی گئی۔

شمیم ممتاز کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تنظیمیں جو سالوں سے بے کار تھی اور اپنا ریکارڈ اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام ہوئی تھی انہیں فہرست سے نکال دیا گیا جبکہ جو تنظیمیں باقی ہیں ان کی جانب سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنا ریکارڈ مرتب کریں گی اور تنظیموں کو فعال کیا جائے گا۔

صوبائی مشیر کا کہنا تھا کہ نئی این جی اوز کی رجسٹریشن پر پابندی ختم ہونے کے بعد ان کی انتظامیہ کے لیے صوبائی محکمہ داخلہ سے نان ابجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) ضروری ہوگا جبکہ گزشتہ معاہدے میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔

اس سے قبل ان کا کہنا تھا کہ ایک بڑی تعداد میں این جی اوز بغیر آڈٹ ریکارڈ کے کام کررہی تھیں اور انہوں نے اپنی فنڈنگ کے ذرائع بھی ظاہر نہیں کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا ملکی و غیر ملکی این جی اوز کے معاملات کی تحقیقات کا فیصلہ

تاہم نئی پالیسی میں ہر این جی اوز کے لیے سالانہ اپنی رجسٹریشن کی تجدید کرانا لازم ہے۔

ڈان سے گفتگو میں انہوں نے بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (آئی این جی اوز ) کے بارے میں بتایا کہ ان تنظیموں کو بھی سندھ کے اضلاع میں کام کرنے کے لیے محکمہ سماجی بہبود سے این او سی لینا ضروری ہوگا، ساتھ ہی مقامی این جی اوز پارٹنر کی تفصیلات بھی بتانی ہوں گی۔

اس کے علاوہ جو آئی این جی او سندھ کے مخصوص اضلاع میں کام کرے گی اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ کم از کم 50 فیصد ملازمین مقامی آبادی سے بھرتی کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں