لاہور: پنجاب حکومت نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی کو اشتہاری قرار دینے کے معاملے پر موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم مذاکرات کے ذریعے دھرنا ختم کروانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جن مطالبات پر تحریک لیبک پاکستان نے دھرنا ختم کیا تھا وہ مطالبات والا معاہدہ اسلام آباد ہائی کورٹ غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

ترجمان پنجاب حکومت نے مزید کہا کہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ، تحریک لیبک پاکستان کے سربراہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: فیض آباد معاہدے پر عمل نہیں ہواتوملک بھر میں احتجاج ہوگا، خادم رضوی

ملک احمد خان نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت نے پولیس سے کارروائی کروائی تو تحریک لیبک پاکستان کے دھرنے میں کچھ لوگ موجود ہیں، جو اشتعال انگیزی کرسکتے ہیں۔

ترجمان پنجاب حکومت نے واضح کیا کہ ان کی حکومت چاہتی ہے کہ فیض آباد والی صورتحال یہاں دوبارہ نہ پیدا ہو۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم خادم حسین رضوی کو سمجھا رہے ہیں کہ اس دھرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

خیال رہے کہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان 3 اپریل سے داتا دربار کے باہر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور حکومت کو ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا گیا کہ وہ معاہدہ فیض آباد کو پورا کرے بصورت دیگر 4 اپریل کو چار بجے پریس کانفرنس میں راست اقدام کا اعلان کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: عدالت کا خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنے کا حکم

گزشتہ روز خادم حسین رضوی نے دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کو تنبیہ کی تھی کہ اگر فیض آباد دھرنے کے حوالے سے معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ملک بھر میں دوبارہ احتجاج کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں فیض آباد دھرنے کا اختتام ایک معاہدے کے ذریعے ہوا تھا جس کے تحت وفاقی وزیر قانون نے استعفیٰ دیا تھا جبکہ مظاہرین کے خلاف مقدمات واپس لینے کا بھی وعدہ کیا گیا اور معاہدے میں فوج کے ایک جنرل کے بھی دستخط تھے۔

خادم حسین رضوی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے معاہدہ فوج کی ثالثی پر کیا ہے۔

اسلام آباد کی عدالت نے 24 مارچ 2018 کو خادم حسین رضوی اور دیگر مظاہرین کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ 3 اپریل 2018 کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس میں مفرور ملزم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی اور دیگر کو اشتہاری قرار دے دیا تھا۔

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس:خادم حسین رضوی کے وارنٹ گرفتاری جاری

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی رہائی کا آغاز ہوگیا اور ڈی جی پنجاب رینجرز میجر جنرل اظہر نوید کو، ایک ویڈیو میں رہا کیے جانے والے مظاہرین میں لفافے میں ایک، ایک ہزار روپے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں