اسلام آباد: ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی ہدایت پر بنیادی معیار پر پورا نہ اترنے والے کھانسی کے سیرپ ’سینکوس‘ کو مارکیٹ سے واپس منگوالیا گیا۔

نوارٹس فارما کی جانب سے تیار کردہ یہ سیرپ ملک بھر میں فروخت کیا جاتا ہے اور اسے عام طور پر کھانسی کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تاہم کمپنی کی جانب سے اس بات کا اشتہار بھی دیا گیا اور رضا کارانہ طور پر مارکیٹ سے سینکوس سیرپ کا اسٹاک واپس منگوالیا گیا۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ یہ سیرپ تیسرے فریق کی جانب سے تیار کیا گیا تھا لیکن اس کی واپسی کا فیصلہ مریضوں کی حفاظت اور اخلاقی طور پر کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کھانسی سے آرام کے لیے سیرپ فائدہ مند؟

ڈریپ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ سینکوس سیرپ بنیادی معیار پر پورا نہیں اترتا اور اس دوا میں مخصوص مقدار میں کیمیکل موجود ہے، جس کی بنیاد پر کمپنی کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اسلام آباد کی حدود سے سیرپ کو واپس منگوا لے اور اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرائے۔

اس حوالے سے ڈریپ کے ترجمان اختر عباس نے ڈان کو بتایا کہ فروری کے دوران معمول کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے علم میں یہ بات آئی کہ یہ سیرپ معیار کے مطابق نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر کمپنی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ چند بیچوں میں مسئلہ ہے لیکن بعد میں کمپنی نے ڈریپ سے درخواست کی کہ وہ سیرپ کے استعمال کی معیاد کو 3 سال سے کم کرکے ڈیڑھ سال تک کرنے کی اجازت دے۔

تاہم ڈریپ کی جانب سے کمپنی کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے سیرپ کے اسٹاک کو مارکیٹ سے واپس منگوائے۔

انہوں نے بتایا کہ کمپنی کی جانب سے مسلسل ان ہدایات پر مزاحمت کی جارہی تھی لیکن بالآخر یہ معاملہ حل ہوا اور کمپنی نے سیرپ کی واپسی کے حوالے سے اشتہار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کھانسی سے ریلیف کے لیے 5 گھریلو نسخے

ترجمان نے مزید بتایا کہ کچھ عناصر کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک خط گردش کررہا تھا، جس سے بے چینی پیدا ہوئی، تاہم ہماری اطلاع کے مطابق اب یہ سیرپ میڈیکل اسٹورز پر فروخت نہیں ہورہا اور ڈاکٹر بھی اس معاملے سے باخبر ہیں۔

اختر عباس کا مزید کہنا تھا کہ معاملہ سیرپ کی معیاد کا تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ اس سے سیرپ کا اثر کم ہوجائے گا، جس کی وجہ سے کمپنی استعمال کی معیاد کی تاریخ کم کرنا چاہتی تھی لیکن ڈریپ کی جانب سے کوئی خطرہ نہیں لیا گیا اور سیرپ کو واپس منگوانے کی ہدایت کی گئی۔


یہ خبر 10 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں