قطر آفس وقتی طور پر بند کیا ہے: طالبان
کابل: کل بروز منگل مورخہ 9 جولائی کو طالبان کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے قطر میں اپنا آفس وقتی طور پر بند کردیا ہے۔ انہوں نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا۔ انہوں نے وعدوں کو توڑنے کا الزام بھی عائد کیا۔
اس آفس نے 18 جون سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا، اور یہ 12 سال سے جاری لڑائی کے بعد امن معاہدے کی جانب پہلا قدم تھا، لیکن افغان صدر حامد کرزئی نے اس حوالے سے ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے اسے جلاوطن حکومت کا غیر سرکاری سفارت خانہ قرار دیا۔
کرزئی نے سیکیورٹی کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ باہمی مذاکرات سے علیحدگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ وہ کسی بھی طرز کے امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے، جبکہ بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ اگلے برس امریکی قیادت میں ایک لاکھ مغربی فوجیوں کے افغانستان سے انخلاء سے قبل وہاں پر جاری مذہبی سرکشی کو ختم کیا جائے۔ؕ
پاکستان میں موجود طالبان کے ایک اہلکار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بذریعہ ٹیلیفون بتایا کہ ”ہم نے وعدوں کو توڑے جانے کی وجہ سے قطر کا آفس وقتی طور پر بند کردیا ہے۔“
”ہم امریکیوں کے ساتھ خوش نہیں ہیں، کابل کی حکومت اور تمام فریقین ہمارے ساتھ دیانت دار نہیں ہیں۔“ انہوں نے کہا، لیکن اپنے اس بیان کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
امریکہ کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ قطر میں طالبان کے آفس کا بند ہونا ایک مشکل مرحلہ تو ضرور ہے، لیکن اس کو امن مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئیے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان جین پساکی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ”ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر طالبان یہ خواہش رکھتے ہیں تو قطر آفس کے آغاز کے حوالے سے پیدا ہونے والی یہ غلط فہمیاں مصالحتی عمل کو آگے بڑھنے میں کسی قسم کی رکاوٹ بننی چاہئیں۔“
”ہم مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔“ ایک افغان اہلکار کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے، جب کہ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں طالبان کی جانب سے کیے گئے ایک بم دھماکے میں 17 عام شہری ہلاک ہوگئے، جبکہ قندھار ایئرپورٹ پر سلواکین سپاہی کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی فوج کے تیزی کے ساتھ انخلاء کا خواہشمند ہے، لیکن صدر کرزئی کی بڑھتی ہوئی مایوسی کی وجہ سے مستقبل میں کسی بھی طرز کے امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ سامنے آتے رہیں گے۔
امریکی صدر بارک اوبامہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کے 2014 کے اواخر تک انخلاء کے معاملے پر کاربند ہیں، اگر چہ اوبامہ انتظامیہ کابل حکومت سے مذاکرات کررہی ہے کہ وہ اپنی افواج کا کچھ حصہ انخلاء کے بعد بھی چھوڑ دیں گے۔
کرزئی کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے اور متعدد مرتبہ ان میں بہت زیادہ اتارچڑھاؤ آتا رہا، گزشتہ ماہ خلیجی ریاست قطر میں طالبان کے آفس کے تنازعے کو لے کر اس میں مزید گراوٹ پیدا ہوگئی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ امریکہ کس قدر افواج کو افغانستان سے نکالے گا یا کتنے امریکی فوجی القاعدہ کے دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے وہیں چھوڑ دے گا، لیکن مذاکرات کے معاملے پر وہ سختی سے قائم ہے۔