فلسطین میں غزہ کی اسرائیلی سرحد کے ساتھ مسلسل تیسرے جمعہ کو ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا جس دوران جھڑپوں میں متعدد فلسطینی زخمی ہوگئے۔

یہ مظاہرے اسرائیلی فوج کی جانب سے 33 فلسطینیوں کی ہلاکت اور ہزاروں کو زخمی کرنے کے بعد کیے جارہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق سرحد کے ساتھ دو علاقوں میں پتھر پھینکنے والے فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 8 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں سے ایک کو سر میں گولی لگی۔

زخمیوں میں سے بیشتر مشرقی غزہ سٹی میں زخمی ہوئے جبکہ 2 افراد وسطی غزہ میں البُریج کے قریب تصادم میں زخمی ہوئے۔

شمالی غزہ میں اسرائیل کے بڑے جھنڈے کو نذر آتش کیا گیا جسے پہلے زمین پر بچھا کر مظاہرین کے چلنے کے لیے رکھ دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فوج کی فائرنگ، فلسطین میں 2014 کے بعد بدترین خونی دن

30 مارچ سے ہونے والے مظاہروں کے باعث اسرائیل کو چیلنج کا سامنا ہے جس نے یہ کہتے ہوئے سیدھی فائرنگ کرنے پر تنقید کو مسترد کردیا تھا کہ ایسا کرنا ضروری ہے۔

مظاہروں کے منتظمین نے جمعہ کے احتجاج کو اسرائیلی پرچم نذر آتش کرنے اور فلسطینی پرچم لہرانے کے لیے طلب کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے مظاہرین نے سرحد علاقے میں ٹائر جلا کر احتجاج کیا تھا۔

آزاد تحقیقات کا مطالبہ

مظاہروں کے پہلے دو جمعہ کو اسرائیل کے ساتھ سرحد کے پانچ مقامات پر ہزاروں فلسطینی جمع ہوئے تھے۔

اسرائیل حماس پر، تحریک جو غزہ سے چلائی جاتی ہے اور جس کے ساتھ اسرائیل 2008 کے بعد تین جنگیں لڑ چکا ہے، ان مظاہروں کو قوت بخشنے کا الزام لگاتا ہے۔

تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو، جو اسرائیلی فوجیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے، فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنتونیو گوتیرس اور یورپی یونین نے معاملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

گزشتہ جمعہ کو اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے یاسر مرتضیٰ نامی صحافی بھی ہلاک ہوا، جو عینی شاہدین کے مطابق واقعے کے وقت پریس جیکٹ بھی پہنے ہوئے تھے۔

اسرائیل نے صحافی کو حماس کا ادا شدہ رکن بتایا تاہم وہ اس بات کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں