وہ تنگ آکر مجھے کہتی، تم مجھے سمجھ کیوں نہیں رہے؟

پگلی جانتی ہی نہیں تھی، محبوب کو چاہا جاتا ہے، سمجھا نہیں جاتا۔ محبت کو سمجھنا ضروری نہیں ہوتا۔ یہ اُس شاہکار کی طرح ہے جو سمجھ نہ بھی آئے تب بھی اس کا احترام واجب ہے، اس کی توصیف واجب ہے۔

میری جان! محبوب کو سمجھنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ اسے بس چاہتے ہیں اور ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ اسے جس چیز سے محبت ہو اس سے بھی محبت کرتے ہیں۔

تم جانتی ہو، میں فنکار ہوں اور چائے فنکار کے خون میں دوڑتی ہے۔ مگر یقین مانو، مجھے چائے کبھی اتنی پسند نہیں تھی پر جب سے پچھلی سردیوں میں، تم نے مجھے اسی باغیچے میں اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پلائی، مجھے یہ امرت دھارا لگنے لگی ہے۔ تم جس چیز کو بھی پسند کرتی ہو وہ مجھ کو بھاتی ہے، تمہیں کالا رنگ بہت پسند ہے سو میں بھی اسے پسند کرتا ہوں، میں نے اس رنگ کے بے شمار جوڑے سلوا رکھے ہیں۔ دیکھو، میں نے کبھی یہ تو نہیں پوچھا نا کہ تمہیں یہ کیوں پسند ہے، میں نے کبھی تمہاری پسند کے معیار کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ محبوب کو صرف چاہا جاتا ہے، سمجھا نہیں جاتا۔

تمہیں کھانے میں بریانی پسند ہے، سندھی بریانی اور مجھے جب جب تمہاری یاد آتی ہے میں یہی کھاتا ہوں، تم کئی بار میرے لیے بریانی بنا کر لائی اور یقین کرو تمہاری بنائی ڈش میرے لیے ڈش نہیں، تبرک ہوتا تھا تبرک۔

لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں اِسی سیکٹر کے اِسی پارک کے اِسی بینچ پر کیوں بیٹھتا ہوں، میں انہیں کیسے بتاؤں کہ یہی پارک تمہارا پسندیدہ تھا، یہ بینچ تمہارا پسندیدہ تھا، میں یہاں بیٹھ کر تمہیں اپنے افسانے سناتا تھا اور تم سنتے سنتے اپنا سر میرے کاندھے پر رکھ لیتی تھی۔ میرے کندھوں نے میری ماں کے جنازے کے بعد کسی ایسی پاکیزہ اور مبارک شے کا وزن نہیں سہا جتنا تمہارے سر کا تھا۔ آج مجھے لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ میں کیوں گھنٹوں اسی جگہ بیٹھا رہتا ہوں اور میں نے کبھی انہیں سمجھانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ محبوب کی باتوں کو سمجھایا نہیں جاتا، اس کی وضاحت بھی نہیں دی جاتی۔ صرف اپنایا جاتا ہے۔

شہر میں چھاؤنی کے علاقے میں ایک بہت بڑے اور معروف ہوٹل کے نیچے ایک چھوٹا سا غیر معروف کیفے ہے۔ یہ محبت کرنے والوں کی پسندیدہ جگہ ہے، یہ غیر معروف ہے مگر اہلیانِ محبت کا پسندیدہ اسپاٹ ہے۔ محض 7 میزوں والے اس چھوٹے سے کیفے کی کافی بہت لذیذ ہوتی ہے۔ مجھے تم پہلی دفعہ یہاں لے کر گئی تھی اور اس کے بعد اس کیفے نے ہماری بے شمار ملاقاتیں دیکھی ہیں۔ یہاں کی در و دیوار نے ہماری لا شمار باتیں اور باتوں میں ٹھہرتی باحجاب خاموشی سنی ہے۔ ہماری بہت سی شامیں اس کیفے کے ایک مخصوص میز پر بیٹھے گزری ہیں۔ تمہیں گیلری کے پاس والی نشست پسند تھی سو میں ہمیشہ ویٹر سے کہہ کر وہ تمہارے لیے رزیو کرا دیتا تھا۔

کئی دفعہ ہم یہاں بارش کے موسم میں بھی گئے، تم چپ چاپ گیلری کے شیشے پر پڑتے، لڑکتے پانی کے قطروں کو دیکھتی رہتی تھی اور میں تمہیں تکتا رہتا تھا۔ مجھے کافی بے حد کڑوی لگتی تھی اور تم ہمیشہ ویٹر کے سرو کرنے کے بعد اس میں میرے لیے چینی کے پیکٹ کھول کر ڈالتی تھی، ایک گھونٹ چکھتی تھی اور کہتی تھی، یہ اب پرفیکٹ ہے، پی لو اور اس کے بعد مجھے کافی کڑوی نہیں لگتی تھی۔

تمہارے چلے جانے کے بعد میں اب تک اس کیفے میں شام کو جاتا ہوں، گیلری والی کرسی پر بیٹھتا ہوں، شیشے سے باہر خلاء میں تکتا رہتا ہوں، وہی کافی منگواتا ہوں، خود اس میں دو، چار، پانچ پیکٹ چینی گھول لیتا ہوں مگر اب اس کی کڑواہٹ نہیں جاتی، اسے تمہارے لبوں کی چاشنی میسر نہیں آتی اور میں وہ کڑوا محلول اپنے اندر انڈیلتا رہتا ہوں۔ میرے پاس یہ بتانے کو اب کوئی نہیں مگر میں نے ایک بات کا مشاہدہ کیا ہے، کافی صرف 2 ہی صورتوں میں مزے دار ہوتی ہے، یا تو یہ آپ کے محبوب نے بنائی ہو یا پھر اسے آپ اپنے محبوب کے ساتھ پی رہے ہوں اور اب میں دونوں چیزوں سے محروم ہوں۔ میں نے آج تک اس کیفے کا کسی اور کو نہیں بتایا، میں آج تک اس میں کسی اور کے ساتھ نہیں گیا، اس کیفے سے مجھے محبت ہے کیونکہ یہ تمہاری پسندیدہ جگہ تھی۔

میں نے گٹار تمہارے لیے سیکھا تھا۔ میں تمہیں اس پر کئی دھنیں سناتا، گنگناتا اور تم دل کا عکس آنکھوں میں لیے مجھے سنتی رہتی تھی۔ میں نے تمہارے لیے گٹار سیکھا تھا مگر جب سے تم گئی ہو میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا۔ میں نے جس سے گٹار سیکھا تھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ بڑا علیٰ ظرف ساز ہے، لوگ اس کی تار کھینچتے ہیں، اسے تکلیف ہوتی ہے، یہ چیختا ہے مگر اس کی چیخ میں شکوہ نہیں ہوتا ہے، یہ اپنے درد کو سُروں میں ڈھال کر فضا میں بکھیر دیتا ہے، مگر اب اس کے تار ایک ایک کرکے ٹوٹ رہے ہیں اور ہر تار کے ٹوٹنے سے مجھے محسوس ہوتا ہے گویا میرے تمہارے دل کے جڑے تار ٹوٹ رہے ہوں۔

تکلیف ہوتی ہے مگر میں چیختا نہیں، میں اعلیٰ ظرف نہیں یا شاید مجھ میں ہمت نہیں۔ میں نے پڑھا تھا، جس غم پر چیخ لیا جائے، رو لیا جائے وہ بہت چھوٹا غم ہوتا ہے اور تمہارے جانے کا غم ہرگز چھوٹا نہیں ہے میری جان۔

آج سے 20 سے 30 سالوں کے بعد جب میں بوڑھا ہوجاؤں گا، میرے پاس اس وقت کچھ فخر کرنے کو رہے نہ رہے، مجھے اس بات پر فخر رہے گا کہ میں نے تمہیں چاہا ہے، تم سے، تمہاری یاد سے کبھی بے وفائی نہیں کی۔ میں نے زندگی میں انسانوں میں سب سے زیادہ وفادری تمہارے ساتھ کی ہے۔ تمہاری موجودگی میں بھی، تمہاری غیر موجودگی میں بھی۔

میں نے تم سے اور تم سے وابستہ ہر شے سے محبت کی ہے اور یہ بنا سوچے سمجھے کی ہے۔ سو تمہارے ان تمام سوالوں کا میرے پاس یہی جواب ہے کہ میں نے تمہیں کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کیونکہ یہ میرے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا۔ میں نے صرف تم کو چاہا ہے کیونکہ محبوب کو صرف چاہا جاتا ہے، سمجھنے میں وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔

تبصرے (4) بند ہیں

Mishkat Apr 20, 2018 12:45pm
wah
Maneev John Apr 20, 2018 02:41pm
یہاں کی در و دیوار نے ہماری لا شمار باتیں اور باتوں میں ٹھہرتی باحجاب خاموشی سنی ہے...........Waah
ام البنین Apr 20, 2018 06:09pm
خزیمہ ! سوچ اور جزبوں کو حرف بہ حرف ایسے روانی سے لکھنا اک خدادصلاحیت ہے جو کہ خدا نے آپ کو بخشی ہے. یہ بھی اک محبت ہے...خوب لکھا ہے .
سدرہ ڈار Apr 23, 2018 11:38am
"تکلیف ہوتی ہے مگر میں چیختا نہیں، میں اعلیٰ ظرف نہیں یا شاید مجھ میں ہمت نہیں۔ میں نے پڑھا تھا، جس غم پر چیخ لیا جائے، رو لیا جائے وہ بہت چھوٹا غم ہوتا ہے"۔ اتنی خوبصورت تحریر مدت بعد پڑھی، ایک ایک لفظ پر اثر اور ہر سطر دل میں اترتی محسوس ہوئی۔ اب تک کی بہترین تحریر ہے یہ۔