اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تا حیات قائد نواز شریف نے گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان سے کہا ہے کہ وہ عوام کے سامنے وضاحت کریں کہ سینیٹ انتخابات میں چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کی نشست کے لیے صادق سنجرانی اور سلیم مانڈی والا کو ‘کس کے حکم’ پر وٹ دیا اور ‘ان کے کیا مقاصد’ تھے۔

لندن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے انہیں خود بتایا کہ پی ٹی آئی کو چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے ‘اوپر سے حکم’ آیا تھا۔

یہ پڑھیں: نواز شریف،عمران خان اور افتخار چوہدری کیخلاف توہین عدالت کی درخواستیں سماعت کےلیے مقرر

نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) واحد سیاسی جماعت ہے جو پاکستان کے عوام کی آواز پر اپنا فیصلہ کرتی ہے جبکہ سینیٹ انتخابات میں پی ٹی آئی نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار کو ووٹ دے کر ثابت کردیا کہ وہ اور دیگر سیاسی جماعتیں ‘امپائر کی انگلی کی جانب دیکھتے’ اور ‘اوپر سے آرڈ’ لیتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی میں ‘دھاندلی ہوئی اور ان کی پارٹی کو پیچھے دھکیلا’ گیا اور ایسے ماحول میں سینیٹ انتخابات بھی ہوئے جس کے بعد سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے جبکہ پی ٹی آئی نے خود ہارس ٹریڈنگ کا اعتراف کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’را نے مجھے نواز شریف کو اذیت پہنچانے کیلئے اکسایا تھا‘

نوازشریف نے کہا کہ ‘انہیں سخت ذہنی دباؤ میں رکھا گیا لیکن وہ سابق آمر پرویز مشرف کی طرح نہیں جو پاکستان سے راہ فرار اختیار کرلیں اور یہ ہی وہ فرق ہے جو عوام پرویز مشرف اور مجھ میں دیکھ رہے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ان کے خلاف کیس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، احتساب عدالت میں ہفتے میں پانچ مرتبہ پیش ہوتا ہوں جبکہ میں کسی قسم کی کرپشن میں ملوث نہیں دوسری جانب متعدد لوگوں کو تین مہینے میں ایک مرتبہ بلایا جاتا ہے۔

سابق وزیراعظم نے اپنے خلاف تمام مقدمات کو ‘سیاسی کیسز’ قرار دیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف تمام سیاسی حربے صرف انتخابات میں حصہ لینے سے روکنا ہے۔

مزید پڑھیں: ’نگراں وزیر اعظم کے لیے پیپلز پارٹی سے مشاورت نہیں ہوسکتی’

انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ ان کی تقریر پر پابندی عائد کر دی گئی جبکہ مارشل لاء کے دور میں بھی سینسر شپ نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے عوام پریشان ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا پر پابندی لگا کر آزادی اظہار رائے پر قدغن لگائی جاری ہے’۔

انہوں نے تقریر پر عائد پابندی کو ‘انتخابات سے قبل دھندلی’ قرار دیا اور امید ظاہر کیا کہ قوم اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعے ریاست مخالف اقدامات کی نفی کریں گے’۔


یہ خبر 22 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں