نیویارک: ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ ایران پر پابندیاں بحال کرے گی تو ہم اپنا جوہری پروگرام دوبارہ شروع کر دیں گے۔

سی بی ایس نیوز کے پروگرام 'فیس دا نیشن' میں انٹرویو دیتے ہوئے جواد ظریف نے کہا کہ ’ہمارے پاس ایک سے زائد آپشنز موجود ہیں جنہیں بروقت استعمال کیا جاسکتا ہے، ان آپشنز میں پہلے کے مقابلے میں تیز نیوکلیئر پروگرام شروع کرنا بھی شامل ہے۔‘

جواد ظریف کا حالیہ بیان، رواں ماہ ایرانی صدر حسن روحانی کے دیئے گئے اس بیان کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم معاہدہ توڑنے والے پہلے فریق نہیں ہوں گے لیکن اگر دوسری جانب سے ایسا کیا گیا تو یہ ان کے لیے پچھتاوے کا باعث ہوگا۔‘

یہ بھی پڑھیں: ایران، این پی ٹی سے دستبردار ہوسکتا ہے

جواد ظریف ایران کے اعلیٰ ترین سفارت کار ہیں جنہوں نے اوباما انتظامیہ کے دور میں دو سال مذکرات کیے جس کے نتیجے میں وہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

جوائنٹ کمیشن پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کے تحت ہونے والے ان طویل مذاکرات میں ایران پر عائد پابندیوں کے سلسلہ وار خاتمے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، جس کے جواب میں ایران کی جانب سے نیوکلیئر پروگرام روک دیا گیا تھا۔

واضح رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی الیکشن مہم کے دوران 12 مئی کو مذکورہ معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرچکے ہیں، تاہم ایران پر کوئی نئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔

البتہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایران پر لگائی گئی بیلسٹک میزائل ٹیسٹ، نیوکلیئر انسپیکٹر کی رسائی اور نیوکلیئر پروگرام محدود کرنے کی پابندی برقرار رہے گی۔

مزید پڑھیں: جوہری دن: ایرانی صدر کی امریکا پر شدید تنقید

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے، جو اوباما انتظامیہ کے دور میں ہونے والے اس معاہدے کے شروع سے مخالف تھے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مذکورہ معاہدے کو ختم کر دیا جائے۔

انٹرویو میں جواد ظریف سے جب سوال کیا گیا کہ اگر امریکی صدر اس معاہدے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس آپشنز تیار ہیں اور ضروری ہوا تو ہم اہم فیصلے لیں گے، دنیا ہم سے ایک ختم شدہ یک طرفہ معاہدہ نبھانے کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 23 اپریل 2018 کو شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں