کراچی کے ساحل سمندر پر واقع مشہور فوڈ اسٹریٹ دو دریا کو بند کرنے کے فیصلے کے بعد 17 میں سے 3 ریسٹورینٹس کو بند کردیا گیا۔

ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی جانب سے دو دریا پر قائم فوڈ اسٹریٹ کے ریسٹورینٹس کو 2 ماہ میں کاروبار بند کرنے کے لیے نوٹس جاری کردیئے گئے۔

ڈی ایچ اے کی جانب سے جاری نوٹس میں ریسٹورینٹس مالکان کو جون سے قبل اپنا کاروبار بند کرنے کی ہدایت کی گئی۔

خیال رہے کہ دو دریا فوڈ اسٹریٹ کو ختم کرکے وہاں بلند رہائشی اور کمرشل عمارتیں تعمیر کیے جانے کا امکان ہے، جس کے باعث ان ریسٹورینٹس کی بندش کا فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کراچی:دودریا میں حادثے کے بعد فائرنگ سے نوجوان جاں بحق

واضح رہے کہ ڈی ایچ اے کی جانب سے یہ زمین ریسٹورینٹس مالکان کو لیز پر دی گئی تھی، جسے خالی کرانے کے لیے دو برس قبل بھی نوٹس دیئے گئے تھے، تاہم یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا تھا۔

اس معاملے پر ریسٹورنٹس مالکان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اب بھی عدالت کا حکم امتناع موجود ہے اور ہم ان تمام معاملات پر عدالت سے رجوع کر رہے ہیں لیکن ڈی ایچ اے بضد ہے کہ جون سے پہلے ان ریسٹورینٹس کو خالی کروانا ہے۔

اس حوالے سے ڈان اخبار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ڈی ایچ اے کے اس فیصلے کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شہریوں کا سخت رد عمل دیکھا گیا۔

شہریوں کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’دو دریا‘ اور ’دو دریا کو بچاؤ‘ کے ہیش ٹیگ کا استعمال کیا گیا اور اس خوبصورت محل وقوع پر تعمیرات کے فیصلے کو غلط قرار دیا گیا۔

واضح رہے کہ ڈیفنس فیز 8 میں ساحل سمند پر واقع 1.5 کلو میٹر طویل فوڈ اسٹریٹ دو دریا کراچی کے دیگر مقامات سے بالکل مختلف ہے اور یہاں کا خوبصورت نظارہ اور سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں یہاں آنے والوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں اور یہاں کراچی کے شہریوں کے علاوہ غیر ملکی بھی آتے ہیں۔

تاہم تقریباً 10 برس قبل یہ بنجر علاقہ منشیات اور دیگر جرائم کے حوالے سے جانا جاتا تھا اور لوگوں کو یہاں آنے میں خطرہ محسوس ہوتا تھا اور یہاں پلاٹ خریدنے والے اپنے فیصلے کو غلط سمجھتے تھے، ایسی صورتحال میں سرمایہ کاروں کی جانب سے ایک خطرہ لیا گیا اور دو دریا کہ مقام پر لیز حاصل کرکے کچھ ریسٹورینٹس کھولے گئے اور وہاں سے خوف کا تصور ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

اس حوالے سے دو دریا ریسٹورینٹس کے مالک کا کہنا تھا کہ ’یہ جگہ بنجر تھی اور ڈی ایچ اے کی جانب سے ہمیں 5 برس کی لیز پر دی گئی تھی اور ساتھ ہی ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اسے 20 سے 25 برس تک بڑھا دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس جگہ کو ٹھیک کیا، اس علاقے میں سرمایہ لائے اور ہر ہفتے ہزاروں افراد یہاں آتے ہیں لیکن ڈی ایچ اے کی جانب سے ہمیں بتایا گیا کہ لیز کی تجدید نہیں کی جائے گی، جس پر ہم نے ان کے خلاف 2014 میں کیس داخل کیا اور حکم امتناع حاصل کیا، تاہم اس حکم امتناع کی مدت 2 ماہ میں ختم ہونے والی ہے۔

یہ آسان لڑائی نہیں

ایک ریسٹورینٹ مالک کا کہنا تھا کہ ’ڈی ایچ اے کو امید ہے کہ وہ اس علاقے کو خالی کرالیں گے لیکن ہم لڑائی کر رہے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ آسان نہیں ہے لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق 25 کروڑ روپے اس جگہ پر خرچ کرچکے ہیں اور یہ سرمایہ کاری واپس نہیں ہوگی اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب ہم یہ جگہ چھوڑ دیں گے تو ڈی ایچ اے ہمیں لکڑی کا ایک تختہ بھی نہیں لے جانے دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: دو دریا سے ملنے والا عبداللہ نانی کے حوالے

واضح رہے کہ دو دریا کی فوڈ اسٹریٹ پرباورچی، گارڈ، ویٹرز اور والٹس سمیت تقریباً 5 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کی جانب سے اس علاقے میں بڑی تعداد میں تعمیرات پہلے سے جاری ہیں اور انہوں نے اپنے گارڈز کو بھی وہاں تعینات کردیا ہے۔

اس حوالے سے جب ڈی ایچ اے کے ترجمان سے رابطہ کرنے کوشش کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

علاوہ ازیں اس جگہ کے حوالے سے ایک ریٹیلر کا کہنا تھا کہ ’یہ پلاٹ آرمی اور نیوی اسپورٹس کلب کے لیے ہیں جبکہ زمین کا دیگر حصہ چینی سرمایہ کاروں کے لیے رکھا گیا ہے جو یہاں بڑی تعمیرات کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 24, 2018 06:08pm
اگر گوگل میپ سے جائزہ لیا جائے تو وہاں تو ساری جگہ خالی موجود ہے، جہاں کوئی بھی اسپورٹس کلب بنا سکتا ہے، بعض اداروں کا نام استعمال کرکے اس طرح لوگوں کو دربدر کرنا اچھی بات نہیں، ان اداروں کے تو کراچی کیا ملک بھر میں ہر طرح کے ادارے موجود ہیں۔ کراچی میں تو پانی ہی موجود نہیں جس کے باعث عدالت نے بھی بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہیں، اسی طرح اگر یہاں بڑی بڑی عمارتیں بن گئیں تو اس کی وجہ سے کراچی پورت اور پورٹ قاسم کو ملانے والا سدرن بائی پاس بھی متاثر ہوگا۔ اسی طرح ڈیفنس کے زیادہ تر حصے پر کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے برسوں سے مقدمہ زیرسماعت ہے کہ یہ زمین سمندر (بحیرہ عرب) کی بھرائی کرکے حاصل کی گئی اس وجہ سے کے پی ٹی کی ملکیت ہے، چینی سرمایہ کاروں کے لیے مفت کا مشورہ ہے کہ گوادر سے عمان تک گاڑیوں اور ٹرین کے لیے ایک سرنگ بنادیں اور پاکستان کو مشرق وسطیٰ سے منسلک کرادیں سی پیک کے بعد سی روٹ بنانے سے خود ان کو بھی زیادہ فائدہ ہوگا۔