پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پیش کیے گئے مالی سال2018-19 کے بجٹ پر تاجروں اور صنعت کاروں کی جانب سے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کو اچھا بجٹ قرار دیا گیا ہے۔

ماہرمعاشیات سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس میں چھوٹ سے تنخواہ دار طبقے کو فائدہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بجٹ آئندہ انتخابات کے مدنظر پیش کیا ہے۔

کراچی کے صنعت کاروں اور تاجروں نے بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ہاؤس رینٹ میں اضافے کو خوش آئند قرار دیا۔

اسلام آباد چیمبرآف کامرس کی جانب سے بجٹ میں اکنامک پیکج اور ٹیکس چھوٹ کو سراہا گیا۔

ملتان چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں نے بھی بجٹ کو عوامی قرار دیا۔

فیصل آباد اور سیالکوٹ میں بھی تاجروں اور صنعتکاروں نے وفاقی بجٹ میں پیش کی گئیں مراعات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

ڈان نیوز سے گفتگو میں ڈاکٹر اشفاق حسن نے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میں اس کو قبل از انتخابات دھاندلی سمجھتا ہوں۔

ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جو اصلاحات لانے کا اعلان کیا تھا اور صدارتی آرڈیننس بھی جاری کیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس کا جائزہ لینے کا کہا تھا۔

انھوں نے کہا کہ حکومت نے ان اصلاحات کو بھی بجٹ میں شامل کیا ہے لیکن اس کی قانونی حیثیت کیا ہے اس کو بھی دیکھنا چاہیے۔

قوم کے بچوں کومقروض کیا جا رہا، اپوزیشن

دوسری جانب سے حزب اختلاف کی جماعتوں نے بجٹ کو مسترد کردیا۔

سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی باتوں پرحکومت نےکان بند کرلیے ہیں۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ حکومت پراعتماد ہے اور نہ ہی حکومت کواس قسم کابجٹ پیش کرنے کا اختیار ہے۔

انھوں نے کہا کہ بجٹ کے ذریعے قوم کے بچوں کومقروض کیا جا رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر کا کہنا تھا کہ ‘بجٹ میں 500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا اور ایک کھرب سے زائد قرضہ ادا کرنا ہوگا’۔

اسد عمر نے کہا کہ ‘بجٹ میں مکمل طور پر جھوٹے اور مالی خسارہ اور بڑے پیمانے کی ادائیگیوں کے متعلق اس بجٹ میں کچھ نہیں کہا گیا’۔

انھوں نے کہا کہ ‘بجٹ خطرناک انداز میں گرتے ہوئے بیرونی ذخائر کے مطابق نہیں ہے اور معیشت بیل آوٹ کی جانب سے جاری ہے’۔

پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے بجٹ کو ناٹک قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجود حکومت نے پانچ سال تک عوام کے لیے اورجاتے ہوئے آخری مہینے میں خوش خبریاں دینی شروع کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ نہیں بلکہ ناٹک ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے مخالفت کے باوجود وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کا 59 کھرب 32 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کردیا۔

خیال رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے چھٹے اور آخری بجٹ سے چند گھنٹوں قبل مشیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو وفاقی وزیر خزانہ کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

یاد رہے کہ سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثے بنانے سے متعلق ریفرنس کا سامنا ہے اور اپوزیشن کے دباؤ پر وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے اور تا حال واپس نہیں آئے ہیں, 17 نومبر کو اعلیٰ حکومتی سطح پر وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کو ان کے عہدے سے تبدیل کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسحٰق ڈار کی جانب سے 22 نومبر 2017 کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو رخصت کی درخواست دی گئی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا، رخصت منظور ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے وزارتِ خزانہ کی ذمہ داریاں بھی واپس لے لی گئیں تھیں، جس کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزارتِ خزانہ اور اقتصادی امور کا اضافی چارج لے لیا تھا۔

گزشتہ برس 27 دسمبر کو وفاقی حکومت نے مفتاح اسمٰعیل کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا مشیر خزانہ و اقتصادی امور مقرر کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں