اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے وفاقی دارالحکومت کی خصوصی عدالت میں سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف زیرِ سماعت سنگین غداری کیس کا فیصلہ جلد سنانے کے لیے درخواست دائر کردی۔

وکیل محمد اکرم شیخ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک درخواست جمع کرائی جس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یاور علی کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل بینچ سے استدعا کی گئی کہ سنگین غداری کیس میں جاری ٹرائل کا فیصلہ بغیر کسی تاخیر کے سنا دیا جائے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ سابق آمر غداری کیس کے ٹرائل سے بچنے کے لیے بیرونِ ملک جانے میں کامیاب ہوگئے جس سے پاکستان کی مسلح افواج کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: دفترخارجہ لاعلم، پرویز مشرف کو سفارتی پاسپورٹ جاری

محمد اکرم شیخ کے ذریعے جمع کرائی گئی اس درخواست میں کہا گیا کہ اب واقعات سب کے سامنے آچکے ہیں، اور سابق آمر نے بیرونِ ملک جاکر میڈیا کو واضح طور پر بتایا کہ وہ اپنے ادارے کی مدد سے ملک سے باہر آنے میں کامیاب ہوئے تھے تاہم ایسے بیان کی وجہ سے مسلح افواج اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کا کردار سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کروائی گئی اس درخواست میں کہا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف جان بوجھ کر سنگین غداری کیس کے ٹرائل میں پیش نہیں ہو رہے۔

درخواست کے مطابق خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت نے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی تھی جسے قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے عدالت نے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

درخواست میں بتایا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کو پرویز مشرف کےخلاف مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا حکم

درخواست کے مطابق سابق صدر پر 31 مارچ 2014 کو فردِ جرم عائد کردی گئی تھی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، بعدِ ازاں 17 جون سے استغاثہ نے اپنے شواہد پیش کرنا شروع کیے جو 18 ستمبر کو اختتام پذیر ہوئے۔

وفاقی حکومت کی درخواست میں بتایا گیا کہ معزز عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا۔

خیال رہے کہ سی آر پی سی کی دفعہ 342 کسی بھی مجرم کو اپنا بیان دینے کا مکمل حق دیتی ہے تاکہ وہ کسی بھی واقعے کا پس منظر اپنے نظریے سے بیان کر سکے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف جان بوجھ کر مسلسل عدالت سے غیر حاضر ہیں، تاہم ملزم کی غیر موجودگی میں بھی اس کیس کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: پرویز مشرف کا آئندہ ماہ وطن واپسی کا فیصلہ

درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ تاہم حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکال دیا جس کی وجہ سے ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف بیرونِ ملک جانے میں کامیاب ہوئے۔

وفاقی حکومت کی درخواست میں عدالت کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے ملک سے باہر جانے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی ویڈیوز منظر عام پر آئیں تھیں جن میں سابق آرمی چیف کو ایک شادی کی تقریب میں رقص کرتے دیکھا جاسکتا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو پاکستان میں آرمڈ فورسز انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) میں رکھا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں، جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے اور اس معاملے کے بعد ہی انہیں بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی، تاہم پاکستان سے باہر جانے کے بعد ان کے ایسے کسی علاج کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔

خیال رہے کہ عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیئے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا، تاہم ان کے وکلا نے اس حکم نامے کو چیلنج کردیا تھا، جو ابھی بھی خصوصی عدالت میں زیرِ التوا ہے۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ 8 مارچ 2018 کو استغاثہ کے وکیل محمد اکرم شیخ نے خصوصی عدالت کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی بھی مثال دی۔


یہ خبر 29 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں