عمرہ کے لیے روانگی سے تقریباً ایک یا 2 ہفتے پہلے میں نے کسی سے سنا کہ مکّہ میں عربی کے بعد اگر کوئی زبان بولی جاتی ہے تو وہ اردو ہے۔ یہ سن کر مجھے خاصی خوشی ہوئی اور میرا اشتیاق بھی بڑھ گیا۔ یہ بات ہے جنوری 2018ء کی۔

جب میں نے بیگم صاحبہ، ہماری بیٹی غزل، ان کے شوہر ڈاکٹر ذوالفقار میر (جنہوں نے سارے انتظامات کیے تھے) اور ان کے 3 بچّوں کے ہمراہ مکّہ کے ہوٹل میں قدم رکھا تو جو قلی ہمارا سامان لے کر ہمارے کمروں میں داخل ہوا تو وہ خلافِ توقع اردو بہت روانی سے بول رہا تھا۔ میں نے ٹوٹی پھوٹی بنگلہ زبان میں اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے کہا ’آپ زحمت نہ کریں میں اردو بول لیتا ہوں۔‘

جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے اُس کا انتخاب ڈاکٹر ذوالفقار نے یوں کیا تھا کہ وہ حرم شریف کے بالکل سامنے ہے۔ باہر نکلے اور چند قدم چل کر حرم شریف میں بذریعہ بادشاہ عبدالعزیز دروازے کے داخل ہوگئے۔

صبح جب ہوٹل کی پہلی منزل پر ناشتے کے لیے گئے تو انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات کو سجا دیکھ کر دنگ رہ گئے لیکن اس سے کہیں زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب ایک ویٹر کے واسکٹ پر نصب چھوٹی سی پلیٹ پر اس کا نام پڑھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ نام ’جناح‘ ہوگا۔ شکل اور رنگ و روپ سے وہ کسی بھی طرح پاکستانی نہیں لگتا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ سری لنکا کا رہنے والا ہے۔ اس نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ اس کے والد قائدِاعظم کے بڑے مدّاح تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے لاڈلے بیٹے کا نام محمد علی جناح رکھا تھا۔

سری لنکن ویٹر محمد علی جناح—تصویر آصف نورانی
سری لنکن ویٹر محمد علی جناح—تصویر آصف نورانی

میرے داماد نے جو انتہائی فراخ دل ہیں سری لنکا کے جناح صاحب کو ایک اچھی خاصی رقم بطور ٹِپ انعام میں دے ڈالی۔

ناشتے کے تھوڑی دیر کے بعد میں طواف کے لیے روانہ ہوگیا۔ نیچے یعنی کعبہ سے لگے ہوئے احاطے میں بہت بھیڑ تھی، اور دھکّم دھکّی سے بچنے کے لیے میں نے پہلی منزل کا انتخاب کیا۔ فاصلہ تو تقریباً دگنا تھا لیکن بھیڑ کم تھی۔

کہیں کہیں مرمّت کا کام جاری تھا، جس کی نگرانی سعودی عرب کے شرطہ کررہے تھے۔ اگر کوئی غیر عربی قریب جاتا تو وہ زور زور سے کہتے ’اِدھر جاؤ‘،’اُدھر جاؤ‘۔ ان جگہوں پر عربی اور انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی لکھا ہوتا ہے ’فاصلہ رکھیں، کام جاری ہے۔‘

مکہ مکرمہ —تصویر آصف نورانی
مکہ مکرمہ —تصویر آصف نورانی

ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ صفائی کا کام 24 گھنٹے جاری رہتا ہے اور اس کی ذمہ داری پاکستانیوں پر عائد ہے۔

تھوڑی دیر ہوٹل میں سستانے کے بعد میں مِسفلاح (Misfalah) روانہ ہوا جہاں پر مجھے بتایا گیا کہ پاکستانیوں، ہندوستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی دکانیں ہیں۔ سب سے پہلی دکان پر ایک ہم وطن کچھ بیزاری کے عالم میں بیٹھا ہوا نظر آیا۔ دکان پر جا نماز، چادریں اور تسبیح وغیرہ نمایاں تھیں۔

مسفلاج میں ایک ہم وطن کی دکان—تصویر آصف نورانی
مسفلاج میں ایک ہم وطن کی دکان—تصویر آصف نورانی

جب اُس سے بات کی تو اُس پاکستانی نے بتایا کہ ’اُسے 2 سال مستقل کام کرنے کے بعد صرف 2 مہینے چھٹی ملتی ہے جس کے پیسے بھی دیے جاتے ہیں۔‘ وہ ملتان کا رہنے والا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ اس کا آبائی شہر دنیا کے بہترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ میں ملتان کئی دفعہ جاچکا ہوں لیکن میں نے اس سے اختلاف نہیں کیا کیونکہ محبت میں سوچ کا عنصر کم ہوتا ہے۔

اس دکان کے برابر میں ایک بڑی فارمیسی یعنی ولایتی دواؤں کی دکان ہے۔ مالک ایک سعودی ہے اور اس کے 2 ملازم ہیں جن کا تعلق برِصغیر سے ہے۔ محمد اکرم سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں اور غلام کبریا بنگلہ دیش کے ضلع گنجان فینی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے دیکھتے دیکھتے 2 گاہک دکان میں داخل ہوئے اور دونوں ہندوستانی ہونے کے باوجود انتہائی نفیس اردو بول رہے تھے، ایک کے سوالوں کا جواب محمد اکرم دے رہے تھے اور دوسرے سے غلام کبریا نبرد آزما تھے۔

فارمیسی میں کام کرنے والے پاکستانی محمد اکرم اور بنگلہ دیشی غلام کبریا—تصویر آصف نورانی
فارمیسی میں کام کرنے والے پاکستانی محمد اکرم اور بنگلہ دیشی غلام کبریا—تصویر آصف نورانی

اکرم نے بتایا کہ پاکستانی زیادہ تر ’ہوٹل‘ یعنی ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ گزشتہ رات ہم اپنے ہوٹل کی پہلی منزل پر واقع فوڈ کورٹ میں ایک پاکستانی اسٹال دیکھ چکے تھے جہاں بڑے بڑے حروف میں اردو اور انگریزی میں چکن تکہ اور بریانی لکھا ہوا تھا۔

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، چند قدم چلنے پر ’ابو حرب ریسٹورنٹ‘ انگریزی میں لکھا دیکھا، اتنے ہی بڑے حروف میں پاکستانی ہوٹل بھی لکھا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوا تو گرم گرم نان اور مصالحے دار پکوان کی خوشبوؤں نے میرا استقبال کیا۔ ایک طویل بورڈ پر انگریزی، عربی اور اردو میں کھانوں کے نام تحریر تھے۔

’ابو حرب ریسٹورنٹ‘ کا بیرونی منظر—تصویر آصف نورانی
’ابو حرب ریسٹورنٹ‘ کا بیرونی منظر—تصویر آصف نورانی

’ابو حرب ریسٹورنٹ‘ میں داخل ہوتے ہی گرم گرم نان اور مصالحے دار پکوان کی خوشبوؤں نے میرا استقبال کیا—تصویر آصف نورانی
’ابو حرب ریسٹورنٹ‘ میں داخل ہوتے ہی گرم گرم نان اور مصالحے دار پکوان کی خوشبوؤں نے میرا استقبال کیا—تصویر آصف نورانی

مجھے خاصی مایوسی ہوئی کیونکہ وہاں میری مرغوب غذا یعنی نہاری کا نام غائب تھا۔ پتہ چلا کہ نہاری صرف جمعے کو پکتی ہے اور ہم جمعرات کو مدینہ روانہ ہونے والے تھے۔ غرض یہ کہ اُن شہروں کے نام کی فہرست میں مکّہ معظمہ کا نام شامل نہ ہوسکا جہاں شکاگو سے چنّائی (سابقہ مدراس) تک میں نے نہاری مزے لے لے کر کھائی ہے۔

باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص ہر راہگیر کو آبِ زم زم پلا رہا تھا۔ پوچھا تو بتایا گیا کہ اس کے خاندان کا تعلق برما سے ہے۔ وہ روہنگیا نسل سے تعلق رکھتا ہے اور کئی سال پہلے اس کے خاندان والوں نے برما سے بنگلہ دیش ہجرت کی تھی لیکن اردو اس نے مکّہ میں آکر سیکھی۔

اسی طرح مدینہ میں بلکہ یہ کہیے کہ مسجدِ نبوی میں بھی اردو دوسری اہم زبان ہے۔ مثلاً وضو کرنے کی جگہوں پر ایک طرف ’مردانہ وضو گھر‘ اور دوسری طرف ’زنانہ وضو گھر‘ بڑے بڑے لفظوں میں تحریر تھا۔

مسجدِ نبوی کے سب سے بڑے دروازے یعنی دروازہ نمبر 15 پر، نمازیوں کا 6 زبانوں میں استقبال کیا گیا تھا۔ اردو میں ایک شعر تحریر تھا

آپ کی آمد ہماری سعادت ہے

آپ کی راحت ہماری چاہت ہے

مدینہ میں عرب ٹیکسی ڈرائیوروں سے زیادہ پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ لاہور کے ایک پروفیسر بے خیالی میں اپنا ہینڈ بیگ جس میں ان کے اور ان کے بیوی بچوں کے پاسپورٹ تھے ٹیکسی میں بھول گئے تھے۔ وہ بہت پریشان ہوئے کیونکہ دوسرے دن صبح انہیں لاہور جانا تھا۔ وہ بیچارے اِدھر اُدھر بیچارگی کے عالم میں ٹیکسی کو ڈھونڈ رہے تھے لیکن نہ جانے کیسے اس ڈرائیور نے ان کے ہوٹل میں انہیں ڈھونڈ لیا اور ان کا ہینڈ بیگ ان کے حوالے کردیا۔

مدینے میں جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے تھے وہاں کے عملے کے ایک بنگالی ملازم نے مجھے لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے دیکھا تو اس نے مجھ سے پوچھا ’آپ کہاں سے آئے ہیں۔‘ میں نے جواب دیا تو اس نے بغیر سانس لیے دوسرا سوال کیا ’کس شہر سے؟‘

میں نے کہا ’کراچی سے۔‘

’میرے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے اور میں بھی کراچی سے آیا ہوں۔ آپ کراچی میں کہاں رہتے ہیں؟‘

’سی ویو‘ میرا مختصر جواب تھا۔

’کیا بات ہے! میں سی ویو کے پیچھے کسی بنگلے میں کام کرتا تھا بلکہ میرا کچھ سامان ابھی بھی وہاں ہے۔‘ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

’آپ رات کا کھانا میرے ساتھ کھائیں‘ اس نے مجھے مدعو کیا۔

’میں کراچی میں آپ کے ساتھ کھاؤں گا‘ میں نے کہا۔ ’لیکن آپ اپنے ہوٹل کے سعودی عملے کے لوگوں کو مسکرانا تو سکھائیں۔‘

’یہ بڑا مشکل کام ہے۔‘ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

میں نے مصر، سوڈان اور دوسرے عرب جو ہوٹل میں ٹھہرے تھے کُھلے دل سے مسکراتے ہوئے دیکھا، نہ دیکھا تو صرف سعودی عربوں کو۔ ’اللہ ان کو نیک ہدایت دے‘ میرے دل سے نکلا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Fozia May 03, 2018 11:50am
میں نے مصر، سوڈان اور دوسرے عرب جو ہوٹل میں ٹھہرے تھے کُھلے دل سے مسکراتے ہوئے دیکھا، نہ دیکھا تو صرف ’’سعودی عربوں کو ’’۔ ’اللہ ان کو نیک ہدایت دے‘ میرے دل سے نکلا۔
اعجاز May 04, 2018 10:14am
مسکرانے سے یاد آیا۔۔ مسکرانے کیلئے تھائی بہت مشہور ہیں، مجھے یقین ہے آپ تھائی لینڈ بھی گئے ہوں گے، انہوں نے سرکاری سطح پر خود کو مسکراہٹ والی قوم یا مسکرانے والی قوم کہتے ہیں، اور یہ بات درست بھی ہے وہ مسکراتے بہت ہیں۔