روسی صدر ولادیمیرپیوٹن نے اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود چوتھی مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

پیوٹن 1999 سے تاحال روس کے حکمران ہیں اور رواں سال مارچ میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد حلف اٹھا کر جوزف اسٹالن کو پیچھے چھوڑتے ہوئے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے روس کے پہلے رہنما بن گئے ہیں۔

خیال رہے کہ پیوٹن نے مارچ میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں 77 فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان انتخابات میں متحرک اور مخالف رہنما پر پابندی تھی۔

حلف برداری کی تقریب میں روسی آئین کی کتاب پر ہاتھ رکھ کر خطاب کرتے ہوئے پیوٹن نے کہا کہ ‘یہ میرا فرض اور میری زندگی کا مقصد ہے کہ روس کے لیے اور اس کے حال و مستقبل کے لیے ہر ممکن اقدام کروں’۔

کریملن کے اینڈرییو ہال میں پیوٹن کی حلف برداری تقریب میں ہزاروں افراد شریک تھے اور وہ پیوٹن کے لیے بچھائی گئی ریڈ کارپٹ کے کناروں میں کھڑے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:صدارتی حلف برداری سے قبل پیوٹن مخالف مظاہروں میں شدت آگئی

روسی صدر کی حلف برداری تقریب میں امریکی اسٹار اسٹیون سیگول بھی جنھوں نے روسی شہریت حاصل کررکھی ہے جبکہ جرمنی کے سابق چانسلر گیرہارڈ شروڈر اور روس کے سابق صدر کی بیوہ نائنا یلتسینا بھی شریک تھیں۔

پیوٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ‘میری اپنی ذمہ داریوں پر گہری نظر ہے اور روسی عوام کے تعاون پر ان کا شکرگزار ہوں اور ہم نے اپنے وطن کی عزت کو بلند کردیا ہے’۔

انھوں نے کہا کہ ‘بطور ریاست کے سربراہ میں روس کی طاقت اور عزت و استحکام کو مزید مضبوط کرنے کے لیے جو کچھ کر سکا کر لوں گا’۔

اپنے خطاب کے بعد انھوں نے پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ سبکدوش ہونے والے وزیراعظم دیمرتی میڈویڈوف کو نیا مینڈیٹ دیں تاکہ تسلسل برقرار رکھا جائے۔

واضح رہے کہ ولادیمیرپیوٹن کی جانب سے چوتھی مرتبہ صدارتی عہدہ سنبھالنے سے قبل ملک کے بیشتر علاقوں میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے مرکزی رہنما آلیکسی ناوالنی سمیت ہزاروں شہریوں نے احتجاج شروع کیا تھا۔

یاد رہے کہ آلیکسی ناوالنی کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے دور رکھا گیا تھا۔

اے ایف پی کے مطابق 27 روسی ریاستوں سے اپوزیشن کے رہنما آلیکسی ناوانی سمیت 16 سو سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔

دوسری جانب ماسکو میں سینٹ پیٹرزبرگ اور متعدد شہروں میں ریلی نکالنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں