اسلام آباد: پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کے خلاف مذمتی قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں اور اس سلسلے میں خبردار کیا گیا کہ اس قسم کے حملوں سے آئندہ انتخابات پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

دونوں ایوانوں کے ارکان نے مکمل تحقیقات کر کے اس واقعے کے اصل ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ یہ آئندہ عام انتخابات کو ملتوی کرنے کی سازش ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ارکان قومی اسمبلی کے حفاظت کو اپنی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ارکان اسمبلی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے متوقع انتخابات کے پیش نظر حفاظتی انتظامات میں اضافہ کرنے کے لیے تمام صوبائی چیف سیکریٹریز اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (ائی جی پیز) کو خط لکھیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال قاتلانہ حملے میں زخمی

انہوں نے وفاقی وزیر احسن اقبال پر ہونے والے قاتلانہ حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذہب کے نام پر کی گئی ان کارروائیوں کا تدارک ہونا چاہیے۔

جبکہ اپوزیشن ارکان کی جانب سے زخمی وزیر اور حکمران جماعت سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا تاہم اپوزیشن نے انتہا پسند عناصر کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پوری طرح نافذ نہ کرنے پر حکومت پر تنفید بھی کی۔

اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس مشکل گھڑی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے پر تمام جماعتوں کا شکریہ بھی ادا کیا، انہوں نے کچھ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے متنازع نعروں کا استعمال کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب سیاسی رہنما اپنی تقریر ’گالی‘ سے شروع کریں گے تو اس سے معاملات بگڑیں گے اور اختتام گولی پر ہوگا۔

یہ بھی دیکھیں: وزیر داخلہ احسن اقبال پر فائرنگ، گولی دائیں کندھے پر لگی

خواجہ سعد رفیق نے احسن اقبال پر حملے کو مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب ہم طالبان سے نمٹنے کی کوششیں کررہے ہیں تو دوسری جانب ملک میں ایک اور دشمن سر اٹھا رہا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حملے کے پیچھے وہی لوگ ملوث ہیں جو مذہب کے سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کئی پارلیمینٹیرین نے اضافی سیکیورٹی واپس لیے جانے کے عدالتی فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔

سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمٰن ملک نے اس ضمن میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے مذکورہ فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی، ان کا کہنا تھا کہ احسن اقبال پر ہونے والا حملہ قوم پر حملہ ہے۔

جبکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی چیف جسٹس کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے سب کی آنکھیں کھل جانی چاہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف تمام سیاسی قوتوں کو متحد ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: وزیرداخلہ پرحملہ: ملزم کا تحریک لبیک کا رکن ہونے کا اعتراف، ڈی سی نارووال

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل (بی این پی ایم) کے رکن قومی اسمبلی عیسیٰ نوری نے کہا کہ ایک جانب سیاستدانوں کی زندگی داؤ پر لگی ہے جبکہ دوسری جانب سیکیورٹی واپس لی جارہی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو انتہا پسندوں کا آسان ہدف بنا دیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اعجاز جاکھرانی کا کہنا تھا کہ اس حملے کے پیچھے کونسی طاقتیں ملوث تھیں؟ کیا یہ انتخابات ملتوی کرانے کی سازش تھی؟ حالیہ واقعات کی باریک بینی سے تحقیقات کی جانی چاہیے۔

احسن اقبال پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر اظہار خیال دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن عبدالمنان نے کہا کہ اس واقعے سے انہیں کوئی حیرت نہیں ہوئی بلکہ ملک میں سیاسی ماحول گرم اور اشتعال انگیز ہونے کے سبب ایسا حملہ متوقع تھا، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اسی واقع پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے انتہا پسند عناصر اور کالعدم تنظیموں کے خلاف فیصلہ کُن اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: احسن اقبال پر حملہ: 'ملزم کی تفتیشی ویڈیو لیک ہونا شرمناک عمل'

دوسری جانب ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمان نے خبردار کیا کہ احسن اقبال پر ہونے والا حملہ واحد واقعہ نہیں بلکہ یہ انتہا پسندوں کی جانب سے سیاستدانوں کو دی جانے والی دھمکیوں کا تسلسل ہے۔

سینیٹر رضا ربانی نے احسن اقبال پر ہونے والے حملے کے بارے میں کہا کہ انتخابات کے قریب ملک کے وزیر داخلہ پر ہونے والا حملہ محض اتفاق نہیں، 2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بھی اس قسم کی صورتحال کا سامنا تھا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 8 مئی 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں