پاکستان پہلی مرتبہ آیا ہوں، لیکن بار بار آنے کی خواہش رکھتا ہوں

پاکستان پہلی مرتبہ آیا ہوں، لیکن بار بار آنے کی خواہش رکھتا ہوں

ہندوستانی سینما کے معروف اداکار ’ونے پاٹھک‘ بہار کے ضلع بھوجپور کے علاقے رانچی میں پیدا ہوئے۔ الہٰ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے، جہاں سے تھیٹر کے شعبے میں سندیافتہ ہوکر واپس لوٹے۔ اپنے فنی کریئر کی ابتداء تھیٹر سے ہی کی، رفتہ رفتہ ٹیلی وژن اور فلم کی طرف بھی آگئے۔ ان کی وجہءِ شہرت فلموں میں مزاحیہ اداکاری بنی، جن میں فلم ’بھیجا فرائی‘ میں نبھانے والا کردار ’پدم بھوشن‘ ناقابلِ فراموش ہے، پھر جس کا سیکوئل بھی بنایا گیا۔

انہوں نے اپنی زندگی میں بہترین سنجیدہ کردار بھی ادا کیے، جس میں ’گور ہری داستان‘ فلم میں نبھایا جانے والا مرکزی کردار آرٹ سینما میں ایک نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

آرٹ اور کمرشل سینما میں یکساں مقبول اداکار نے ٹیلی وژن میں انٹرویوز کے شوز کی ایک سیریز ’ہر گھر کچھ کہتا ہے‘ بھی کی، جسے بے حد مقبولیت ملی، اس سیریز میں انہوں نے ہندوستان کی فلمی صنعت کی نامور شخصیات کے ساتھ ان کے آبائی علاقوں میں جاکر انٹرویوز کیے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی دیگر ٹیلی وژن پروگرامز کیے، جن کو ناظرین نے کافی پسند کیا۔

ونے پاٹھک نے 1998ء کو ٹیلی وژن کے ایک ڈرامے ’ہاؤس اریسٹ‘ میں ٹیلی وژن سے تعلق کی ابتداء کی، اسی برس ’بمبئی بوائز‘ فلم سے فلمی کریئر کا آغاز بھی کیا، جس میں نصیرالدین کے ساتھ دیگر بڑے اداکار بھی شامل تھے۔

جن فلموں میں ان کے نبھائے ہوئے کرداروں کو بہت شہرت ملی، ان میں ’کھوسلا کا گھوسلا‘، ’بھیجا فرائی‘، ’چلو دلی‘، ’رب نے بنا دی جوڑی‘، ’جونی غدار‘ اور ’گور ہری داستان‘ شامل ہیں۔ جبکہ ’ہم دل دے چکے صنم‘، ’ہر دل جو پیار کرے گا‘، ’جسم‘، ’مکس ڈبل‘، ’اومائی گاڈ‘، ’بدلہ پور‘، ’آئس لینڈ سٹی‘، ’کھویا کھویا چاند‘ و دیگر میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے۔ ان کی دیگر اہم فلموں میں سعادت حسن منٹو کی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ پر بننے والی فلم بھی شامل ہے۔

رواں برس کراچی میں منعقد ہونے والے پہلے پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں شرکت کے لیے وہ کراچی تشریف لائے، تو ہم نے خصوصی ملاقات کی۔ اس ملاقات کن کن پہلوؤں پر گفتگو ہوئی، قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔

سوال: آپ پہلی مرتبہ پاکستان تشریف لائے ہیں، کیسا محسوس ہوا؟

جواب: مجھے بہت اچھا لگا، میں نے ہندوستان میں اپنے کئی دوستوں کو جب یہ بتایا کہ میں پاکستان میں موجود ہوں تو انہیں بے حد حیرت ہوئی، مداحوں کی طرف سے میرے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی خاصا حیرت انگیز ردِعمل دیکھنے کو ملا کہ میں پاکستان میں کیا کر رہا ہوں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھے پاکستان آکر بہت اچھا محسوس ہوا۔ میں یہاں کئی لوگوں سے کچھ اس طرح قریب ہوگیا، جیسے برسوں کی شناسائی ہو، کیونکہ مجھے یہاں آکر بہت اپنائیت ملی، جس کے لیے میں خاص طور پر پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے مجھے یہ موقع دیا۔ میں جتنے دن بھی یہاں رہا، بہت ہی پیار ملا، آپ سب لوگ بہت محبت کرنے والے ہیں، میں نے یہاں آکر اس کا عملی تجربہ کرلیا، جاتے ہوئے بہت ساری محبتیں سمیٹ کر واپس اپنے ملک لوٹوں گا اور میری کوشش ہوگی کہ مستقبل میں پاکستان آتا جاتا رہوں۔

وڈیو:حسین افضل.

سوال: کراچی اور ممبئی میں کوئی فرق محسوس ہوا؟

جواب: نہیں، کچھ خاص نہیں، ایک ہی طرح کا ماحول ہے، لوگوں کے ملنے جلنے اور بات کرنے کا انداز بھی کافی قریب قریب ہے، اس کے علاوہ کھانے اور دیگر چیزوں میں بھی ان دونوں شہروں میں بہت مماثلت ہے اور یہ ایک بہت دلچسپ بات ہے۔ ہم ایک جیسی زبان میں گفتگو بھی کرتے ہیں، ہمیں ایک دوسرے سے ملتے رہنا چاہیے۔

سوال: آپ کے خیال میں دونوں ممالک کے فنکاروں کو آپس میں مل جل کر کام کرتے رہنا چاہیے؟ گزشتہ کچھ عرصے سے ثقافتی کشیدگی عروج پر ہے، جس سے بالخصوص پاکستانی فنکار متاثر ہوئے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: دونوں ممالک میں ایسے وسیع تر امکانات موجود ہیں، جن سے استفادہ کرتے ہوئے نجی اور سرکاری سطح پر ایک دوسرے کے اشتراک سے کام کیا جاسکتا ہے اور صرف فلم ہی نہیں بلکہ ادب، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ کے شعبے بھی ہیں، جن میں ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ میں خود ذاتی طور پر بھی اس تعاون کے لیے تیار ہوں، جس کا میں بارہا اظہار بھی کرچکا ہوں، اگر کوئی پاکستان میں بھی مجھ سے کام لینا چاہے تو میں دستیاب ہوں۔

فلم چلو دلی کا پوسٹر۔
فلم چلو دلی کا پوسٹر۔

سوال: آپ کی فلم ’بھیجا فرائی‘ ایک کبھی نہ بھولنے والی فلم ہے، اس فلم کے حوالے سے کیا یادیں وابستہ ہیں؟

جواب: اس فلم کی کہانی کے پیچھے بھی ایک پوری کہانی ہے، قصہ کچھ یوں ہے کہ اس فلم کی جب پیشکش ہوئی اور ہم نے کام کرنے کی حامی بھری۔ لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ فلم ساز کے پاس زیادہ پیسے تو ہیں نہیں، لہٰذا بغیر پیسوں کے کام کرنا پڑے گا، جب ہمیں یہ اندازہ ہوگیا کہ فلم سے پیسے نہیں ملنے تو ہم نے سوچا کہ پھر تفریح کرنے میں کیا حرج ہے، اس کے بعد ہم اس فلم کی عکس بندی مکمل ہونے تک خوب تفریح کرتے رہے، شوروغل برپا کیے رکھا، یعنی جیسے ہم پکنک منانے آئے ہیں، اس رویے اور توانائی کی وجہ سے فلم کے کرداروں میں بھی جان پڑگئی اور ہمیں اس میں کام کرکے بہت لطف آیا، مگر یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ یہ فلم اتنی مقبولیت حاصل کرلے گی اور ہماری پہچان بن جائے گی اور پھر اس کا سیکوئل بھی بنے گا، کیونکہ ہم نے تو ہنستے ہنستے یہ فلم بنائی تھی۔ اب آپ خود سوچیے کہ جس فلم کی شوٹنگ محض 19 دن میں مکمل ہوجائے اور جس پر محض 50 لاکھ خرچہ آیا ہو، اگر وہ فلم سینما میں 20 سے 25 کروڑ کا بزنس کرلے تو پوری ٹیم کو کس قدر خوشی ہوگی۔

تصاویر:حسین افضل.

سوال: آپ آرٹ سینما کے اداکار تھے مگر جلد ہی کمرشل سینما کا بھی حصہ بن گئے، عمومی طور پر فنکار اتنی جلد اپنا مزاج تبدیل نہیں کرتے، لیکن آپ نے یہ مشکل کام بڑی آسانی سے کرلیا، یہ کیسے ممکن ہوا؟

جواب: دیکھیں، فنکار کو اپنے فن کے اظہار کے لیے منچ (اسٹیج) چاہیے، اس کی نوعیت کیسی بھی ہو، مگر اصل چیز تو لگن ہے، جس کے ذریعے آپ اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں، اب چاہے وہ کسی بھی قسم کے سینما میں ہو۔ میں کمرشل سینما میں بھی خود کو بہت سنجیدگی سے جوڑے ہوئے ہوں، اپنے کرداروں پر بہت محنت کرتا ہوں اور چونکہ میں اپنی مرضی کا کام کرتا ہوں، اس لیے بہت خوش بھی رہتا ہوں۔

سوال: پاکستانی سینما کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: میں نے بہت زیادہ فلمیں نہیں دیکھیں، البتہ امریکا میں قیام کے دوران میرے کئی پاکستانی دوست تھے، جن کے ذریعے مجھے پاکستانی فلموں اور ڈراموں کے بارے میں جاننے کو ملتا تھا، مجھے ان میں سے کچھ ڈراموں اور فلموں کو دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا، جس کے بعد مجھے پاکستانی سینما اور ڈرامے کی صنعت کا اندازہ ہوا۔

کچھ عرصہ پہلے جو آخری پاکستانی فلم دیکھی تھی، اس کا نام ’خدا کے لیے‘ تھا۔ یہ فلم دیکھی تو بہت اچھا لگا، اسی طرح فیسٹیول انتظامیہ کی طرف سے نئی فلم ’کیک‘ کی نمائش کا اہتمام کیا گیا، وہ بھی دیکھی، ایسی فلموں کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے ہاں سینما کافی متوازن ہورہا ہے۔ آپ کے ایک اداکار شان شاہد کی اداکاری اور شخصیت سے بہت متاثر ہوا، ان کی شباہت ہالی ووڈ کے ایک معروف ہیرو Robert John Downey Jr جیسی ہے، جنہوں نے آئرن مین میں کام کیا ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں اداکاری کیا ہے، آپ ایک اچھے اداکار کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: اداکاری ایک فن ہے چاہے وہ تھیٹر ہو، ٹیلی وژن یا فلم، اداکار کو ہر شعبے میں یکساں محنت کرنی پڑتی ہے۔ اچھی اداکاری کسی بھی اداکار کو اندر کا اطمینان بھی فراہم کرتی ہے، لیکن یہ ایک آزمائش بھی ہے، کسی بھی کردار کو نبھانا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا، میڈیم اہم نہیں بلکہ احسن انداز میں کام کو انجام دینا ضروری ہے۔

سوال: آپ کو بھیجا فرائی جیسی فلم نے شہرت تو دی لیکن آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ اس طرح کی فلموں کی وجہ سے آپ کو صرف مخصوص مزاحیہ کرداروں تک محدود کردیا گیا ہے؟

جواب: جی ہاں یہ بات ٹھیک ہے،اس فلم کی کامیابی کے بعد مجھے اس نوعیت کے کئی کرداروں کو کرنے کی پیشکش ہوئی، کچھ میں مجھے کام کرنا بھی پڑا۔ میں اس نوعیت کے کرداروں میں بُری طرح پھنس گیا۔ جس طرح میں نے جب ’ہم دل دے چکے صنم‘ میں سپورٹنگ کردار کیا تو اس کے بعد مجھے ویسے ہی کردار ملنے لگے، ہیرو کا دوست، کزن اور اس طرح کے دیگر کردار، مگر پھر کچھ فلم سازوں نے میری دیگر صلاحیتوں کو بھی پہچانا اور مجھے مختلف کردار دیے، جن کے ذریعے میں فلم بینوں پر اپنے دیگر فنکارانہ پہلوؤں کو بھی آشکار کرپایا، جیسے ’بدلہ پور‘ اور ’گور ہری داستان‘، جنہوں نے میری مختلف پہچان بنائی، لیکن مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ہے کہ مجھے صرف مخصوص کرداروں تک رکھا گیا، میرے مداحوں کو مزاحیہ کردار پسند ہیں لہٰذا ایسے کردار بھی کرتا رہوں گا۔

سوال: آپ کا بچپن اور زمانہ طالب علمی وغیرہ کیسا گزرا، اداکاری کی طرف کیسے متوجہ ہوئے؟

جواب: میری پیدائش بہار میں بھوجپور کے علاقے کی ہے، میرے والد پولیس میں تھے، ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا، جس کی وجہ سے ہم بہار کے مختلف شہروں میں قیام پذیر رہے۔ طالب علمی کے ابتدائی دور میں ہاسٹل میں رہنے کا بھی اتفاق ہوا۔ الہٰ آباد کالج سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکا چلا گیا۔ وہاں میں نے ایک تھیٹر کا کھیل دیکھا، جس کی وجہ سے مجھے اداکاری میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ 1994ء میں تھیٹر کے شعبے میں ہی سند حاصل کرنے کے بعد ہندوستان واپس آگیا۔

سوال: آپ نے معروف ہندوستانی فلم ساز ’دیپا مہتا‘ کی فلم ’فائر‘ میں کام کیا، یہ تجربہ کیسا رہا؟

جواب: یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میں امریکا سے تھیٹر کی تعلیم حاصل کرکے ہندوستان واپس آیا تھا۔ ممبئی میں مختلف تھیٹر گروپس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش تھی اور سب سے بڑھ کر صرف تھیٹر کے شعبے میں ہی کام کرنا چاہتا تھا، مگر ان دنوں ممبئی میں ٹیلی وژن اپنے عروج پر تھا، فلمیں بھی زور و شور سے بن رہی تھیں، اس دوران میں نے دہلی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں شرکت کی جہاں میری ملاقات رنجیت چوہدری سے ہوئی۔ انہوں نے مجھے اس فلم کے لیے مختصر سے کردار کی پیشکش کی، جو ایک ٹؤر گائیڈ کا تھا، جو تاج محل پر آنے والے لوگوں کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے، میں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا، یہ میرے کریئر کی دوسری فلم تھی، اس سے پہلے میں ’بمبئی بوائز‘ میں کام کرچکا تھا۔

فلم ’گور ہری داستان کا پوسٹر
فلم ’گور ہری داستان کا پوسٹر

سوال: رواں برس نئی آنے والی فلموں میں، پاکستان کے معروف ادیب سعادت حسن منٹو کی کہانی ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ پر بننے والی فلم بھی شامل ہے، جس میں آپ نے بھی کام کیا ہے۔ کیا پاکستان میں یہ فلم ریلیز ہوسکے گی؟

جواب: کچھ کہا نہیں جاسکتا، آپ دونوں طرف کے سیاسی حالات سے واقف ہیں، فلم کی نمائش کے حوالے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، میری ذاتی خواہش ہے کہ دونوں طرف کے ثقافتی تعلقات پہلے کی طرح معمول پر آجائیں، میں پاکستان اور پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے مجھے بہت زیادہ محبت سے نوازا۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ