ترک صدر کی جرمن کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر پر تنقید

اپ ڈیٹ 15 مئ 2018
جرمنی کے بین الاقوامی کھلاڑی اوزل ترک صدر کو اپنے نام کی ٹی شرٹ پیش کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
جرمنی کے بین الاقوامی کھلاڑی اوزل ترک صدر کو اپنے نام کی ٹی شرٹ پیش کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

ترک صدر رجب طیب اردگان کی فٹبال کے کھلاڑیوں کے ساتھ تصاویر پر جرمن فٹبال فیڈریشن (ڈی ایف بی) نے ان کے بین الاقوامی کھلاڑی میست اوزل اور الکے گندوگان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

خیال رہے کہ ترک نژاد جرمن کھلاڑیوں نے لندن میں ایک تقریب کے دوران ترک صدر کو اپنی دستخط شدہ ٹی شرٹس پیش کی تھیں جس پر گندوگان نے انہیں اپنے معزز صدر کہہ کر مخاطب کیا تھا۔

واضح رہے کہ رجب طیب اردگان دوبارہ الیکشن کے لیے مہم چلارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ترکی: حکمراں جماعت نے طیب اردگان کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

اوزل آرسنال جبکہ گندوگان مانچسٹر سٹی کے کھلاڑی ہیں اور دونوں کھلاڑی اگلے ماہ روس میں شروع ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، جس میں جرمنی کی ٹیم کو سب سے زیادہ پسندیدہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ ترکی کی ٹیم ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکی ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کئی جرمن سیاستدانوں نے جرمن فٹبالرز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جرمنی کے جمہوری اقدار پر سوالات اٹھائے۔

ترک صدر فٹبال کے معروف کھلاڑیوں کے ساتھ کھڑے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
ترک صدر فٹبال کے معروف کھلاڑیوں کے ساتھ کھڑے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

ڈی ایف بی کے صدر رینہارڈ گرندیل کا کہنا تھا کہ ’فٹبال اور ڈی ایف بی اقدار کا تحفظ کرتی ہے جس کا رجب طیب اردگان نے پوری طرح احترام نہیں کیا اور یہ اچھا اقدام نہیں کہ ہمارے بین الاقوامی کھلاڑی ان کے انتخابی مہم کا حصہ بنیں‘۔

ڈی ایف بی کے ڈائریکٹر اولیور کا کہنا تھا کہ ان دونوں کھلاڑیوں میں سے کسی کو بھی اس تصویر کی حیثیت معلوم نہیں تاہم یہ بالکل ایک اچھا اقدام نہیں اور اس حوالے سے ہم ان سے بات کریں گے۔

اس تنقید کے سامنے آنے کے بعد گندوگان کی جانب سے ان کے اور اوزل کے دفاع میں بیان جاری کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں 24 جون 2018 کو قبل از وقت انتخابات کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ ان کی اور ترک صدر کی ملاقات ترک طالب علموں کی مدد کرنے والی ترک فاؤنڈیشن کی تقریب میں ہوئی تھی۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا وہ اپنے اہل خانہ کے ملک کے صدر کے ساتھ بدسلوکی کرتے؟

ان کا کہنا تھا کہ ان تصاویر کا مقصد سیاسی بیانیہ جاری کرنا ہرگز نہیں تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں