محمد علی صدیقی ڈان کے ریڈرز ایڈیٹر اور مصنف ہیں۔
محمد علی صدیقی ڈان کے ریڈرز ایڈیٹر اور مصنف ہیں۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ کوئی جمہوریت کسی کثیر الفریقی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اسے تنقید کا نشانہ بنائے۔ دوسری مثالیں بھی موجود ہیں جن میں اسرائیل اور ہمارا پڑوسی بھارت شامل ہے۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ اس لیے خوش قسمت ہیں کہ ان کے چند پیشروؤں کے لیے یہ کام آسان نہیں رہا ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کم از کم 2 امریکی صدور اُس وقت بے یار و مددگار نظر آئے جب ان کی سالوں کی محنت سے طے پانے والے معاہدوں سے اسرائیل دستبردار ہوگیا۔ مگر پھر بھی بل کلنٹن اور جارج بش جونیئر میں اتنا رکھ رکھاؤ تھا کہ انہوں نے اپنے جرم پر فخر نہیں کیا، نہ ہی وہ ٹرمپ جتنے بے حس اور خوش نظر آئے جو فی الوقت اپنی اس حرکت پر پھولے نہیں سما رہے ہیں۔

1978-79 کا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ سفارتکاری کی ایک روشن مثال تھا کیوں کہ جمی کارٹر نے ناممکن دکھائی دینے والا مقصد حاصل کرلیا تھا۔ وہ اسرائیل اور مصر کے رہنماؤں کو آمنے سامنے لائے جن کے اس وقت تک کوئی سفارتی تعلقات نہیں تھے اور انہی دنوں ایک جنگ لڑ چکے تھے۔ اس تاریخی معاہدے کے تحت عرب دنیا کے سب سے اہم ملک مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا جس کے بدلے میں اسرائیل مصر کے علاقے سینا سے دستبردار ہوگیا۔

پڑھیے: اسرائیل کے قیام کے 70 برس مکمل، یوم نکبہ پر فلسطینیوں کا احتجاج

عرب دنیا نے انور سادات اور جمی کارٹر، دونوں کو صرف مصر اور اسرائیل کے دو طرفہ مسائل پر توجہ دینے اور یروشلم سمیت باقی مقبوضہ علاقوں کو بھلا دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ مگر سچ یہ ہے کہ کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں تمام فریقوں پر اقوامِ متحدہ کی قرارداد 242 کی پاسداری کے لیے زور دیا گیا ہے جس میں اسرائیل کی مقبوضہ علاقوں سے دستبرداری اور عربوں کی جانب سے صیہونی ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہودی بستیوں پر یہ معاہدہ واقعی خاموش تھا، مگر اپنی کتاب Palestine: Peace, not Apartheid میں کارٹر کہتے ہیں کہ اسرائیلی وزیرِاعظم میناچم بیگن نے ان سے ذاتی طور پر وعدہ کیا تھا کہ وہ یہودی آبادکاری کو روک دیں گے۔ بیگن نے بعد میں وعدہ خلافی کی اور نئی کالونیوں کی تعمیر اور موجودہ کالونیوں کی توسیع جاری رہی۔ جب تک انہیں وعدہ خلافی کا علم ہوا تب تک کارٹر وائٹ ہاؤس میں نہیں رہے تھے، مگر سابق بیلاروسی دہشتگرد اب بھی وزیرِاعظم تھا۔ تب سے لے کر اب تک کالونیوں میں اضافہ ہوا ہے اور حال ہی میں لیخود پارٹی کی اعلیٰ کمان نے اسرائیل کی خود مختاری کو مغربی کنارے کی آبادیوں تک 'توسیع' دینے کی سفارش کی ہے۔

امریکی پالیسی میں بتدریج تبدیلیوں سے آگاہ کارٹر نے لکھا کہ ’اب تک امریکا کو مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے بامقصد اور غیر جانبدار انداز میں زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے جانا جاتا تھا اور اس سے یہی توقع کی جاتی تھی۔‘

انہوں نے لکھا کہ ’اپنی اس اہم ذمہ داری پر واپس آنے کے لیے واشنگٹن کو ایک قابلِ اعتماد، منصف، مستقل مزاج، غیر متزلزل اور پُرجوش ثالث بننا ہوگا جو کہ دونوں فریقوں کا ساتھی ہو، اور کسی ایک کا حامی نہ ہو۔‘ بھلے ہی انہوں نے تسلیم کیا کہ ’کبھی کبھی ایسا ہوگا کہ جھکاؤ کسی ایک فریق کی جانب ہو، مگر طویل مدت میں ایک ایماندار ثالث کا کردار واشنگٹن کو ایک دفعہ ضرور نبھانا چاہیے۔’

ظاہر ہے کہ جو پالیسیاں بعد میں آئیں، وہ 'جھکاؤ' سے کہیں زیادہ تھیں، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ صیہونی ڈکٹیشن کے آگے حیران کن طور پر گھٹنے ٹیکتی نظر آ رہی ہے۔

مزید پڑھیے: کیا کمزور مسلم حکمران ’یروشلم‘ کی حفاظت کرسکیں گے؟

جب کلنٹن کے اسرائیلی دوستوں نے 1993ء میں طے پانے والے ڈیکلیریشن آف پرنسپلز کو برباد کردیا، تو اس وقت کلنٹن اقتدار میں تھے۔ اس شاہکار اعلامیے کے طے پانے پر اسرائیلی وزیرِاعظم یتزاک رابن اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات کو وائٹ ہاؤس کے باغیچوں میں ہاتھ ملاتے دیکھا گیا۔ بھلے ہی اعلامیے کا جھکاؤ اسرائیل کے حق میں تھا مگر اس اعلامیے میں 2 ریاستی حل کی حمایت کی گئی تھی، اور قابض افواج کے فلسطین سے نکلنے اور ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا ٹائم ٹیبل پیش کیا گیا تھا جبکہ یروشلم کا حتمی فیصلہ بعد میں طے پانا تھا۔ اپنی اس کامیابی پر حق بجانب انداز میں فخر کرنے والے کلنٹن نے اسے ’بہادروں کا امن’ قرار دیا۔

مگر ایک یہودی انتہاپسند کے ہاتھوں یتزاک رابن کی زندگی کا خاتمہ ہوا اور ان کے بعد آنے والے وزرائے اعظم، خاص طور پر بنجامن نیتن یاہو، ایہود بارک اور ایریل شیرون نے امریکا کو دوبارہ مذاکرات پر مجبور کیا اور ڈیکلیریشن آف پرنسپلز کو تقریباً پسِ پشت ڈال دیا۔ لاکھوں افراد نے ایریل شیرون کے ٹینکوں کو ڈیکلریشن آف پرنسپلز کے تحت اسرائیل کے خالی کردہ علاقوں کو واپس لیتے ہوئے اور یاسر عرفات کے ہیڈ کوارٹرز کو گراتے ہوئے دیکھا۔ کلنٹن نے 1990ء میں کیمپ ڈیوڈ میں ایک اور معاہدے کی کوشش کی مگر ناکام رہے اور ڈیکلریشن آف پرنسپلز کا حال دیکھنے کے لیے زندہ ہیں۔

آئیں یہ بھی دیکھیں کہ ایناپولس کانفرنس بھی کیسا دھوکہ تھا۔ جارج بش جونیئر کی جانب سے میریلینڈ کے دار الخلافہ میں نومبر 2007ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس نے ایک قرارداد منظور کی جس میں 2008ء کے اختتام تک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا، یاد رہے کہ اس کانفرنس میں دوسروں کے علاوہ عرب لیگ نے بھی شرکت کی۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اسرائیلی وزیرِاعظم ایہود اولمرٹ وطن واپس پہنچنے پر معاہدے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے کہنے لگے کہ وہ ایناپولس کانفرنس کا ٹائم ٹیبل ماننے کے پابند نہیں ہیں۔

پڑھیے: ممنوعہ سرزمین: ایک پاکستانی کا سفرِ اسرائیل

دسمبر 2011ء میں امریکا میں اسرائیل نواز لابی نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس فرائیڈمین کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگئی کیوں کہ انہوں نے ایسے موضوع کو چھیڑا تھا جو اس لابی کے نزدیک گستاخی تھا۔ Newt, Mitt, Bibi and Vladimir کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں انہوں نے لکھا تھا: ’مجھے یقیناً امید ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم بنجامن نیتن یاہو سمجھتے ہیں کہ اس سال (2011ء) کانگریس میں نیتن یاہو کے لیے ارکان کی جانب سے کھڑے ہوکر جو تالیاں بجائی گئیں وہ ان کی سیاست کے لیے نہیں تھی بلکہ ان تالیوں کے لیے ادائیگی اسرائیلی لابی نے کی تھی۔‘

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں