پشاور کے مضافاتی علاقے حیات آباد کے رہائشی مارچ کے اوائل میں ایک دن صبح سویرے ٹریکٹروں اور ڈمپروں کے شور کی وجہ سے بیدار ہوئے۔ انہیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ مشینری نے حیات آباد کے سب سے سرسبز علاقے یعنی پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی عمارت کے قریب موجود درختوں سے لدا ہوا بیلٹ اکھاڑنا شروع کر دیا تھا۔

خیبر پختونخواہ (اس وقت سرحد) کے پی پی پی وزیرِ اعلیٰ حیات محمد شیرپاؤ کے نام سے منسوب حیات آباد کو سب سے پہلے 1970 کے اواخر میں ایک رہائشی علاقے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی کشش کی ایک وجہ درختوں سے بھرپور سڑکیں بھی تھیں۔

سالہا سال ترقیاتی کاموں کے باوجود پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے بانیان نے عمارت کے ساتھ ایک کلومیٹر طویل مرکزی سروس روڈ پر موجود صدیوں پرانے برگد اور دیگر انواع کے درختوں کو باقی رکھا تھا۔ اس سے نہ صرف انتہائی گرم موسم میں ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوتا بلکہ گرم دوپہروں میں عوام، پرندوں اور جانوروں کو یہاں پر سائے میں پناہ لیے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ حیات آباد کا یہ حصہ 1978 میں تعمیر ہوا اور اس کا روزانہ یہاں سے گزرنے والے لوگوں پر اچھا اثر پڑتا تھا۔

مگر آج مسائل میں خرابی کی ایک اور وجہ ٹمبر مافیا کا وجود ہے جو مبینہ طور پر پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں موجود عناصر کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ٹمبر مافیا پشاور اور دیگر شہروں میں "کنٹریکٹر-کنسلٹنٹ" منصوبہ بندی کے آغاز میں ہی سینکڑوں قیمتی درختوں کو اپنا ہدف بنا لیتا ہے۔ اور سروس روڈز پر موجود درختوں کے حالیہ قتلِ عام میں پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اپنی دیوار کے ساتھ موجود درختوں کو بھی بچانے میں ناکام رہا ہے جس سے "کنسلٹنٹ-کنٹریکٹر" گٹھ جوڑ کے حقیقی ہونے کا گمان پیدا ہوتا ہے۔

اگر اس دفعہ فہمِ عام سبقت لے گئی ہوتی تو درختوں کی دو قطاروں پر مشتمل 10 گز چوڑا راستہ سائیکل چلانے یا چہل قدمی کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ چند سو درخت آکسیجن، اور شدید گرمی میں سایہ اور تازگی فراہم کرنے میں مدد کرتے تھے، یہ سب کچھ اب چھینا جا چکا ہے۔

پڑھیے: قصہ خوانی بازار میں قہوہ خانے کم کیوں ہونے لگے؟

اصلی ڈیزائن سے معلوم ہوتا ہے کہ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی/میٹرو بس) کا روٹ مکمل طور پر تاریخی گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ پر تھا جسے خیبر، یونیورسٹی، اور جمرود روڈ بھی کہا جاتا ہے۔ روٹ کا آغاز پشاور کے نواحی علاقوں سے اور اختتام کارخانو مارکیٹ پر ہونا تھا۔ "سیاسی مجبوریوں" کی وجہ سے روٹ کو حیات آباد کے اندر لانے کا ایک گمراہ کن فیصلہ کیا گیا جس سے اصل روٹ میں 6 کلومیٹر کا اضافہ ہوا۔ جنہوں نے بی آر ٹی کی منصوبہ بندی کی ہے، انہوں نے مبینہ طور پر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے شوکت خانم میموریل ہسپتال کے سامنے ہی ایک میٹروبس اسٹیشن بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر اس کی وجہ سے حیات آباد کو شدید گرمیوں میں محفوظ رکھنے والے قیمتی پرانے درخت تباہ ہوئے ہیں۔

جدید نواحی علاقہ ہونے کی وجہ سے حیات آباد کی سڑکیں چوڑی ہیں اور ٹریفک جام کا مسئلہ کبھی بھی نہیں ہوتا۔ مگر غیر ضروری طور پر اسٹیشنز اور روٹس کا اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اصل بجٹ میں اضافہ ہوا ہے اور وسیع تر مفادات کے لیے عوامی مفاد پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ درحقیقت پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک سینیئر افسر تو میٹروبس کے روٹ کو حیات آباد کے اندر لانے کی منطق پر سوال اٹھاتے ہیں جس نے اس کے نفیس گرین بیلٹس اور گھنے سائے والے درختوں کو برباد کر دیا ہے۔

افسر کہتے ہیں، "اس سانحے سے اس لیے بچا جا سکتا تھا کیوں کہ حیات آباد کی فیز 3 اور 5 میں کافی جگہ تھی جسے جمرود روڈ پر حتمی اسٹیشنوں کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔" ایک بڑا پارکنگ لاٹ اور ایک ٹیکسی اسٹینڈ بھی کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ اور مسافروں کے لیے آسانی پیدا کر سکتا تھا۔

اس دوران آج کا جی ٹی روڈ جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کرتا ہے۔ تمام یادگاروں، چورنگیوں، اور نفاست سے تراشے گئے باغیچوں اور گھنے سایہ دار درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق 25 ہزار درختوں کو کاٹا گیا ہے مگر اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا شہر کی فضا کے معیار، فضا اور شور کی آلودگی، درجہ حرارت اور صحت پر ناقابلِ تلافی اثر ہوگا۔

پشاور کس طرح 'ترقی' پا رہا ہے، یہ اس کی صرف چھوٹی سی مثال ہے۔

دہائیوں تک پشاور کے شہری تخیل، یہاں تک کہ عام فہم سے بھی عاری پالیسیوں کے رحم و کرم پر رہے ہیں۔ میگا پراجیکٹس کو 'ترقی' سمجھا جاتا ہے جبکہ ان کی سماجی و اقتصادی قیمت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

بی آر ٹی کے پیچھے موجود منطق

2016 میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو درست طور پر ایک جدید ٹریفک انجینیئرنگ کا کریڈٹ دیا گیا جس نے کافی حد تک ٹریفک جام کا مسئلہ حل کر دیا۔ سڑکوں کی خوبصورتی اور اپ گریڈنگ کے لیے تقریباً 1 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ مگر پھر بی آر ٹی پراجیکٹ آیا جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی جانب سے لاہور میں تعمیر کیے جا رہے ٹرانسپورٹ پراجیکٹس کو پی ٹی آئی کا جواب تھا۔

اکتوبر 2017 میں جب صوبائی حکومت کے پاس اگلے عام انتخابات سے قبل صرف 7 ماہ رہ گئے تھے، تب اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ بی آر ٹی منصوبے کی تعمیر ٹرانس پشاور نامی کمپنی کی ذمہ داری بنا جسے خیبر پختونخواہ حکومت نے اسی منصوبے کے لیے بنایا تھا۔

پڑھیے: پشاور کا قدیم ورثہ وارثوں کا منتظر

منصوبے میں پشاور کے نواحی علاقے (چمکنی) سے حیات آباد تک پشاور کینٹ اور جمرود روڈ سے گزرنے والا 26 کلومیٹر طویل روٹ شامل ہے جس پر مسافروں کے لیے 31 اسٹیشنز ہوں گے۔ حکومت نے اس منصوبے کو 6 ماہ میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا جو کہ زبردست ٹریفک جام اور تعمیراتی کام کے دوران متبادل راستوں کی عدم دستیابی کو دیکھتے ہوئے ایک مشکل کام تھا۔

بی آر ٹی ٹریک، جس میں زمینی راستہ، انڈر پاسز اور فلائی اوورز شامل ہیں، پشاور کے مصروف ترین اور گنجان آباد علاقوں سے گزرتا ہے جہاں کمرشل پلازے، ریسٹورینٹس، دفاتر، ہسپتال، مارکیٹیں اور تعلیمی ادارے ہیں۔ چنانچہ پشاور میں رہنے والے 40 لاکھ افراد اور روزانہ شہر آنے اور باہر جانے والے ہزاروں لوگ جی ٹی روڈ اور جمرود روڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو سخت طبی اور مالی تناؤ کا سامنا ہے۔

ماہرین کی وارننگز کے باوجود پالیسی سازوں کے خیالی منصوبوں نے تاریخی شہر کی خوبصورتی اور اس کے ماحولیاتی اثاثوں کو برباد کر دیا ہے۔ عوام کی صحت اور ان کی خوشی کسی بھی ترقیاتی منصوبے میں نظر نہیں آتی۔ سینے کے سنگین طبی مسائل کینسر اور موت کا سبب بنتے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں صفِ اول کے ماہرین نے بی آر ٹی منصوبے کی ابتداء سے سینے کے انفیکشنز اور اموات میں خطرناک حد تک اضافہ رپورٹ کیا ہے۔

ماہرینِ تعمیرات کی تنظیم آرکیٹیکٹس آف پاکستان کے خیبر پختونخواہ چیپٹر کے سربراہ منصور احمد الزام عائد کرتے ہیں کہ "بی آر ٹی کا پراجیکٹ میرٹ کے بجائے سیاسی وجوہات کی بناء پر شروع کیا گیا اور یہ منصوبہ بندی کے بجائے صرف پراجیکٹ پر توجہ دیے ہوئے ہے۔ منصوبہ سازی اور ڈیزائننگ میں شراکت داروں کی شمولیت کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ نہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میں بہتری کی گنجائش کافی کم رہ گئی ہے۔"

درحقیقت بی آر ٹی پراجیکٹ نے 2016 میں حاصل کیے گئے فوائد کو گنواتے ہوئے قیمتی وسائل کو ضائع کیا۔ اگر ڈیزائن کم مداخلتی اور ماحول دوست ہوتا تو ان وسائل کو محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ آزاد ماہرین اور سول سوسائٹی انفراسٹرکچر کی زبردست ری ماڈلنگ کو بھی روک سکتے تھے۔

پڑھیے: پشاور میں 32 گھنٹے

ایک حکومت کا اپنے عوام کی بھلائی اور الیکشن کے سال میں مزید ووٹ حاصل کرنے کے لیے کوئی پراجیکٹ شروع کرنا غلط بات نہیں، مگر جس رفتار سے بی آر ٹی پراجیکٹ آگے بڑھ رہا ہے، یہ پشاور کے لیے صرف تباہی کا سبب بنے گا۔

اس ماہ کے آغاز میں خیبر پختونخواہ حکومت نے کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو الطاف درانی کو بی آر ٹی پراجیکٹ کے لیے بسوں کی فراہمی میں تاخیر پر برطرف کر دیا۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ان پر انٹیلیجینٹ ٹرانسپورٹ سسٹم (آئی ٹی ایس) کی خریداری اور ایک وہیکلز آپریٹنگ کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی، جن میں سے دونوں کام انہوں نے نہیں کیے۔

مگر اگلے دن ٹرانس پشاور بورڈ کے چیئرمین، چیف فنانشل آفیسر، اور جنرل مینیجر مارکیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ آپریشنز نے اپنے استعفے جمع کروا دیے۔ ان افسران کا ماننا تھا کہ سابق سی ای او مناسب غور و خوض کی حکمتِ عملی اپنا رہے تھے، اور یہ کہ صوبائی حکومت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی کیوں کہ اس نے اگلے انتخابات سے قبل منصوبے کے افتتاح کا وعدہ کر رکھا ہے۔

روٹ آپشنز

برطانیہ کا بنایا گیا ریلوے راستہ بی آر ٹی کے لیے سب سے بہترین آپشن سمجھا جاتا ہے جو کہ پشاور کے نواحی علاقوں، پرانے شہر، صدر، اور یونیورسٹی کے علاقوں سے ہوتا ہوا بالآخر حیات آباد پہنچتا ہے اور حیات آباد فیز 5 میں شوکت خانم میموریل ہسپتال کے سامنے اختتام پذیر ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی حکام کے مطابق کوششوں کے باوجود وفاقی محکمے پاکستان ریلویز نے اپنی زمین پر تعمیر کرنے کے لیے عدم اعتراض کا سرٹیفیکیٹ جاری نہیں کیا۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کے درمیان سیاسی رسہ کشی نے اس روٹ آپشن کی قسمت پر مہر ثبت کر دی جس کا قیمت کے اعتبار سے زیادہ فائدہ تھا، اس پر کم وسائل خرچ ہوتے، تعمیر میں کم وقت خرچ ہوتا، اور یہ شہر کے دیگر انفراسٹرکچر میں کم مداخلت کرتا۔

دوسرا بہترین آپشن رنگ روڈ تھا جو کہ جی ٹی روڈ (خیبر اور جمرود روڈ) کے ساتھ ساتھ پشاور کے نواحی علاقوں سے چلتا ہوا حیات آباد آتا ہے اور پورے شہر کا چکر لگاتا ہے۔ اس روٹ کی وجہ سے ٹریفک کے شدید دباؤ سے متاثر جی ٹی روڈ سے خاصا دباؤ کم ہوجاتا، جبکہ گنجان آباد علاقوں میں ٹرانسپورٹ کے لیے ایک فیڈر لین سروس بھی قائم کی جا سکتی تھی۔

پاکستان کے تاریخی شہروں میں شہری منصوبہ بندی پر مہارت رکھنے والے ماہرِ تعمیرات محمد خالد کہتے ہیں کہ "پاکستان میں ڈویلپمنٹ ماڈل پراجیکٹس کی بنیاد پر قائم ہے، جبکہ اسے مقامی آبادیوں کی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہیے۔" وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے قدیم ترین شہر پر زبردست اثر ڈالنے والے اس میگا پراجیکٹ کی منصوبہ بندی میں کئی شراکت داروں کو شامل کیا جانا چاہیے تھا۔

خالد کہتے ہیں کہ "پشاور شہر کے سماجی اقتصادی عوامل اندرونِ شہر (قدیم ترین علاقہ جس میں زیادہ تر ورثہ ہے) کے لیے الگ ہیں جبکہ کینٹ اور یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقوں میں الگ ہیں جہاں بڑے کاروبار موجود ہیں۔" ان کے مطابق "علاقوں کی تعمیر اور قدرتی ماحول تبدیل ہوتا ہے جبکہ آبادی کی ضروریات بھی۔ نیچے سے اوپر کی حکمتِ عملی، جس میں سروے، ڈیزائن، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور شراکت داروں کی شمولیت شامل ہیں، اس کے برعکس اوپر سے نیچے کی بیوروکریٹک حکمتِ عملی کی اپنی حدود ہیں۔"

ناقابلِ تلافی نقصانات

پشاور کی کاروباری برادری کی نمائندہ 'کاروان تنظیم' سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی کارکن خالد ایوب کہتے ہیں کہ بی آر ٹی منصوبے کی وجہ سے کاروباری اور تجارتی برادریوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

ایوب کا دعویٰ ہے کہ "بی آر ٹی کے روٹ پر موجود 70 ہزار کاروبار متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے 100 ارب روپے کا زبردست کاروباری نقصان ہوا ہے۔" طویل مدت میں دیکھا جائے تو یہ نقصان بی آر ٹی کے مکمل بجٹ کا دو گنا ہے۔

ایوب کہتے ہیں، "یونیورسٹی روڈ پر 11 ہزار کاروبار، کینٹ میں 7 ہزار، اور پرانے شہر میں 50 ہزار کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ انفرادی طور پر ہر کاروبار کو تقریباً 10 لاکھ روپے تک کا نقصان ہوا ہے۔ 1 ہزار کاروبار بند ہو چکے ہیں جبکہ 3 ہزار کاروبار منتقل ہو چکے ہیں۔ مقامی کمیونیٹیز کی جانب سے ناقص منصوبہ بندی کے خلاف احتجاج کے بعد روٹ میں 15 اسٹرکچرل تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے اضافی وسائل خرچ ہوئے اور عوام کی نقل و حرکت محدود ہوئی۔"

تاجروں اور کاروباری افراد نے کاروبار دوست ڈیزائن کے بدلے میں 1 ارب روپے چندہ اکھٹا کرنے کی پیشکش کی تھی۔ ایوب کہتے ہیں کہ "ایک اوور ہیڈ ٹرین کم خرچ میں زیادہ فائدہ مند اور عوام دوست آپشن ہوتا۔"

فوائد کا توازن

سال در سال پشاور میں عوام کی پریشانیوں میں صرف اضافہ ہی ہوا ہے۔ جنگ کا صدمہ، تباہی، اور عدم تحفظ اب بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ مگر اب جب لوگ معمول کی جانب لوٹ رہے ہیں، تو آبادی کے دباؤ کی وجہ سے روز مرہ کے کام نمٹانا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سفری اوقات زیادہ طویل اور مشکل ہوگئے ہیں اور ٹریفک جام معمول بن چکے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی اور ناہموار سڑکیں جابجا ہیں، گاڑیوں کے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے، فضائی آلودگی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور سینے اور پھیپھڑوں کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہاں کبھی گھنے برگد کے صدیوں پرانے تناور درخت کھڑے ہوا کرتے تھے، شہر میں برگد کے درختوں کو کاٹنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔
یہاں کبھی گھنے برگد کے صدیوں پرانے تناور درخت کھڑے ہوا کرتے تھے، شہر میں برگد کے درختوں کو کاٹنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔

بھلے ہی یہ امید کی جا رہی تھی کہ تکمیل پر بی آر ٹی منصوبہ صاف فضا فراہم کرے گا، زہریلے دھوئیں کے اخراج میں کمی لائے گا، سفر کو سستا اور آرامدہ بنائے گا، اور عوامی شعبے میں مزید ملازمتیں پیدا کرے گا، مگر پشاور کے لوگ اب سوال اٹھانے لگے ہیں۔

جب ماحولیات اور عوامی صحت کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو صوبائی حکومت کے اقدامات زیادہ نکتہ چینی اور عوامی اشتعال کی زد میں آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر تعمیراتی مرحلے کے دوران بی آر ٹی کے ٹھیکیداروں نے ہزاروں بالغ درختوں کو اکھاڑ دیا اور گرین بیلٹس کو تباہ کر دیا۔ اس کی وجہ سے گرد اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے عوام جسمانی عارضوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

خیبر پختونخواہ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے تحت یہ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے)، ماحولیاتی مجسٹریٹس اور انوائرمنٹ ٹریبونلز کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مشکلات کا نوٹس لیں۔ انہیں عوام کی بیماریوں اور اقتصادی نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے خصوصی اقدامات بھی کرنے ہوں گے تاکہ ماحول دوست گورننس کو یقینی بنایا جا سکے۔

بی آر ٹی کے کیس میں حکومت عوامی مشکلات کی جانب نابینا نظر آتی ہے کیوں کہ اس کا ماحولیاتی محکمہ ایسے منصوبے بنانے میں ناکام رہا ہے جو کہ ترقیات کے ساتھ ماحولیات کو بھی مدِنظر رکھیں۔ خیبر پختونخواہ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے نفاذ کے باوجود خیبر پختونخواہ نے اب تک انوائرمنٹ پروٹیکشن کونسل کی ایک بھی میٹنگ منعقد نہیں کی ہے۔ اس قانون کے تحت وزیرِ اعلیٰ کو سال میں کم از کم ایک بار یہ میٹنگ بلانی اور اس کی صدارت کرنی ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی پالیسی کے اہم مسائل پر بحث کی جا سکے۔

صوبے میں بہتر ماحولیاتی گورننس سے پڑنے والے اثرات کا جائزہ لینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے پائیدار ترقی کے مختلف مقاصد 2025ء کے ساتھ تقابل کیا جائے۔ مثلاً مقصد 3 کا تعلق بہتر صحت اور خوشحالی سے ہے، مقصد 6 کا تعلق صاف پانی اور سینیٹیشن سے ہے اور 7 ویں مقصد کا تعلق سستی اور صاف توانائی سے ہے۔ 11 واں مقصد شہروں اور کمیونٹیز کو پائیدار بنانا ہے۔ کے پی حکومت ماحول دوست اقدامات کرنے کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود ان میں سے کسی مقصد کو حاصل کرتی نظر نہیں آتی۔

بی آر ٹی بھی خراب ماحولیاتی گورننس کی ہی ایک مثال ہے۔

جنوری 2015ء میں ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ترناب، پشاور، کی 25 ایکڑ پر محیط زمین ایکسپو سینٹر کی تعمیر کے لیے لے لی گئی۔ اس فیصلے کا مقصد زمین کو زرعی مقاصد کو چھوڑ کر ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تھا، جس سے کے پی کی پہلے سے موجود غذائی قلت کو مزید بڑھانے کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ رواں سال کی ابتدا میں حکومت نے مالا کنڈ میں واقع پلائی کی 400 ایکڑ پر محیط زرعی زمین کو بھی دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ علاقہ اپنے سٹرس پھلوں کی وجہ سے کافی شہرت رکھتا ہے۔ اس زمین کو فیکٹو سیمنٹ لمٹیڈ کے حوالے کردیا گیا تھا تاکہ یہاں ایک بڑی سیمنٹ فیکٹری تعمیر کی جائے۔

اس طرح کے فیصلے دیرینہ ماحولیاتی انتظام کے موافق نہیں ہیں، صرف اس لیے نہیں کہ اس قیمتی زرخیز زمین کو صنعتی استمعال میں لایا جائے گا بلکہ اس لیے بھی کہ سیمنٹ فیکٹری فضائی اور آبی آلودگی کا بھی باعث بنے گی اور اس کے پہاڑی ایکو سسٹم پر خراب اثرات مرتب ہوں گے۔

اس کے بعد شہریوں تک صاف پانی کی فراہمی، سولڈ ویسٹ کو اکٹھا کرنے اور اس حوالے سے موزوں انتظامات کرنے، اینٹوں کے بھٹوں اور کرشنگ صنعت سے پیدا ہونے والی شہری فضائی آلودگی اور تباہ ہو رہی گرین بیلٹ (سبز پٹیوں) جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ بدقسمتی سے کے پی حکومت ان مسائل کو بھی مناسب انداز میں حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مگر ان سب کی وجہ سے صوبے میں بلین ٹری سونامی سے پڑنے والے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات ماند پڑگئے ہیں۔ بلین ٹری سونامی منصوبے کی تمام تر خامیوں کے باوجود کسی بھی دوسرے صوبے میں اسی طرح کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے سب سے مایوس کن بات یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اس قدر جدوجہد کی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف اس کو بے رحمی کے ساتھ خراب بھی کیا جا رہا ہے۔

پڑھیے: پشاور میں ایک ویک اینڈ

بلین ٹری سونامی آہستہ آہستہ اپنی تکمیل کو پہنچ رہی ہے کیونکہ اس کی منصوبہ بندی بہتر انداز میں کی گئی تھی اور اس پر عمل درآمد کیا گیا جبکہ دوسری طرح بی آر ٹی کا منصوبہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ شہری منصوبوں پر ای پی اے کے ساتھ مشاورت کی کمی کیوں دکھائی دیتی ہے؟

آرکیٹیکٹ منصور احمد بتاتے ہیں کہ، بڑے منصوبوں کے بڑے فائدے تو حاصل ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بڑے منفی اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے لاگت اور فائدے (کوسٹ بینیفٹ) کے تجزیے، بار بار جائزے اور منصوبے پر عمل درآمد سے قبل اس حوالے سے مفصل تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

احمد پولیس اصلاحات، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات کا سہرا پی ٹی آئی حکومت کے سر باندھتے ہیں۔ ماحول اور مقامی حکومت، اب بھی ایسے شعبے ہیں جن کے حوالے سے قانون سازی میں اب بھی ٹھوس پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

سی کوس یونیورسٹی میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سی ای او ڈاکٹر فیصل خان کہتے ہیں کہ، ’پشاور میں بی آر ٹی جیسے بڑے منصوبوں کا انتخاب کرنے سے قبل بہتر ہے کہ معاملات کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے سوچ بچار کیا جائے۔

ہم 28 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط حاجی کیمپ سے کارخانو مارکیٹ تک آرام دہ سفر کرنے کے لیے 56 ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ جبکہ 2014ء میں مریخ کے لیے پورے انڈین اسپیس مشن کی لاگت تقریباً 7 اعشاریہ 5 ارب روپے (5 ارب ہندوستانی روپے) آئی تھی۔

جبکہ دوسری طرف، درختوں کی بے رحمانہ کٹائی نے پہلے سے ظلم ستم سہنے والے شہر کے باسیوں کا مورال پست کردیا ہے وہی شہر جو کہ تاریخ کے کتابوں میں پھولوں اور باغوں کا شہر کہلاتا تھا۔ اس شہر کو دبئی میں تبدیل کرنے کی حکومت کی چاہت نے یہ خصوصیت چھین لی۔

احمد پشاور کے شہریوں کی اداسی کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ، ’ہمارا پھولوں سے بھرپور پررونق شہر تو اب کہیں کھو گیا ہے۔ پشاور تو اب ایک کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔‘

یہ مضمون 13 مئی 2018ء کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔


ڈاکٹر شفیق الرحمان پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیاتی سائنس کے سابق چیئرمین ہیں اور موسمیاتی تبدیلی، ماحولیات، پانی کے وسائل اور قدرتی آفات کے موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Engineer May 18, 2018 12:36pm
To all readers : please don't be misguided by these false stories actually PTI is going to change the old Peshawar into Modern develope City and for this development the residents should wait until project completion. This project will definitely change the huge traffic problems facing by common people. Environmental development is the next phase of this project in which the whole Peshawar will be develop through different green belts which will convert Peshawar into the first Green City of Pakistan with modern Transportation technology InshAllah. Positive changes not come by magic but it's truly need sacrifices and commitment. InshAllah PTI will succeed in their mission to provide everyone a new city which will be full of facilities and environmental friendly existing & coming generation InshAllah.
JD Mian May 18, 2018 10:10pm
Your Whole Article focused on The destruction of Trees that will lead to Environmental pollution, Is tarah dekha jay to Pori World me koi project ni bane ga. Actually dekhna tu ye hota he ke govt Project complete hne ke end me Environment friendly projects start krti he ya ni, your concerns and criticism are Childish. Agar govt 25,000 trees khatam krne kr bad unhen dobara replant ni krti tu tb aap ka criticise krna bnta he. Agar writer ke point of view se de k ha jy tu koi project bhi na bane.
zulfiqar May 19, 2018 02:10pm
@Engineer introduce your self and your credential first ...