پشاور: پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے متاثرین (آئی ڈی پیز) نے پشاور کے نواحی علاقے میں کاروباری مصروفیات شروع کردیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب تک خیبر ایجنسی میں بنیادی سہولیات فراہم نہیں کی جائیں گی تب تک واپس نہیں جائیں گے۔

آئی ڈی پیز نے باڑہ تحصیل سے متصل 2 علاقوں سنگو اور بٹا تھل میں باڑا برساتی نالے کے پاس روزگار کے حصول کے لیے کچی دکانیں بنالی ہیں اور ہر سال برسات کے باعث نالے میں سیلابی کیفیت کے باعث کئی لوگ متاثر ہوتے ہیں لیکن بظاہر ان کے پاس کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 2018 میں افغان مہاجرین کی واپسی میں کمی کا امکان

بازار بے ہنگم انداز میں مسلسل مختلف سمت میں بڑھ رہا ہے اور انتہائی بدتر حالت میں ہے تاہم مذکورہ بازار میں ضروریات زندگی کی ہرچیز مل سکتی ہے۔

باڑا بازار بند ہونے کے بعد متعدد گاؤں کے رہائشیوں کو پشاور شہر میں خرید و خروخت کے لیے جانا پڑتا تھا تاہم بٹا تھل میں بازار کی وجہ سے لوگوں کو بہت سہولت ہے۔

اس حوالے سے دوکانداروں نے بتایا کہ لکڑی کی چھوٹی سی دکان کے لیے جگہ کا کرایہ 5 ہزار روپے ہے۔

پیاز بیچنے والے ایک شخص گل رسول نے بتایا کہ باڑا بازار میں پولٹری فارم کا کاروبار شروع کیا لیکن دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے بعد سب کچھ ادھر رہا گیا اور 8 سال قبل اپنے اہل خانہ کے ہمراہ علاقہ چھوڑ دیا۔

ایک اور تاجر ردید سنگھ نے بتایا کہ بیشتر سکھ پشاور شہر میں منقتل ہو گئے ہیں اور خیبر قبائلی علاقوں میں واپس جانے پر راضی نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟

انہوں نے بتایا کہ پشاور شہر میں رہنا ان کی مجبوری ہے اور واپس جا کر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کا کاروبار برباد ہو گیا اور لاکھوں روپے کا نقصان ہوا لیکن اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے’۔

متعدد لوگوں نے خیبر ایجنسی میں امن و امان کے حوالے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کاموں کے لیے مکمل ریلیف پیکج کا اعلان کرنے سے گریزاں ہے۔

انہوں نے شکایت کی کہ اپنے علاقوں میں واپس نہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پینے کا صاف پانی اور تعلیم سمیت بجلی کی سہولیات موجود نہیں ہے۔

یہ پڑھیں: بغیر چھت کے گھر، آئی ڈی پیز کے منتظر

وفاق کے زیر انتظام قبائلے علاقے (فاٹا) کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ 60 فیصد آئی ڈی پیز اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے ہیں جبکہ دیگر معاوضے کے انتظار میں ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ حکومت کو متاثرہ علاقے میں ہونے والے نقصان کا جائزہ لینے کے لیے دوبارہ سروے کرنے کی ضرورت ہے ورنہ لوگ واپس نہیں جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وہاں تاحال تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اور پینے کا صاف پانی اور بجلی کی عدم موجودگی کے باعث لوگ سخت پریشان ہیں’۔


یہ خبر 21 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں