اسلام آباد: احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات میں سے 47 کے جوابات ریکارڈ کرا دیے۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر پیش ہوئے، جہاں مریم نواز نے عدالتی سوالات پر اپنے جوابات ریکارڈ کرائے۔

اپنے بیان میں مریم نواز نے کہا کہ میری عمر 44 سال ہے اور یہ بات درست ہے کہ میرے والد عوامی عہدے پر رہے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل، سپریم کورٹ میں دائر درخواستیں نمٹانے کے لیے تھی، لیکن 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں میرا اور میرے خاوند کا ذکر نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: ’قطری شہزادے نے جے آئی ٹی کی کارروائی میں شامل ہونے سے انکار نہیں کیا‘

مریم نواز کا کہنا تھا کہ 5 مئی 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن جے آئی ٹی کا اس ٹرائل سے کوئی تعلق نہیں بلکہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تشکیل دی گئی۔

عدالت میں جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کا اخذ کردہ نتیجہ اور رائے غیر مناسب اور غیر متعلقہ ہے،اس رائے کو ان حالات میں اس کیس میں میرے خلاف پیش نہیں کیا جاسکتا۔

اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مریم نواز بیان میں کومہ اور فل اسٹاپ بھی پڑھنے لگیں، جس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ کامہ نہ پڑھیں، مریم نواز نے جواب دیا کہ میرے وکیل نے پڑھنے کو کہا میں نے پڑھ دیا کیونکہ آئین کا آرٹیکل 10 اے فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔

احتساب عدالت میں نواز شریف کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے ارکان کو سپریم کورٹ نے تعینات کیا، جس کے ارکان پر تحفظات تھے جبکہ جے آئی ٹی ارکان جانبدار تھے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول کا تعلق ایس ای سی پی سے تھا جبکہ وہ لاہور کے سابق میئر میاں اظہر کے حقیقی بھانجے تھے جبکہ بلال اور ان کا خاندان پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کا حمایتی ہے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس بات کا ثبوت میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر کی عمران خان سے ملاقات ہے جبکہ بلال رسول کی اہلیہ بھی پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن ہیں اور جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول کھلے عام مسلم لیگ (ن) کے مخالف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عامر عزیز کو جے آٗئی ٹی میں شامل کیا گیا، اس سوال سے متعلق وہی موقف ہے جو نواز شریف نے اپنایا کیونکہ جے آئی ٹی میں انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید کو شامل کرنا نامناسب تھا اور دونوں کی شمولیت سے 70 سال سے جاری سول ملٹری تناؤ بھی جے آئی ٹی پر اثر انداز ہوا۔

اپنے بیان کے دوران پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واجد ضیاء جانبدار تھے، انہوں نے اپنے کزن کو سولیسٹر مقرر کیا۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو جو اختیارات دیے وہ درخواستیں نمٹانے اور اپنی معاونت کے لیے تھے لیکن جلد 10 پر جے آئی ٹی کی خود ساختہ حتمی رپورٹ غیر متعلقہ تھی۔

عدالت میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو اس کیس میں بطور شواہد نہیں پڑھا جاسکتا، یہ رپورٹ تفتیشی ایجنسی کی رپورٹ ہے اور اس میں یکطرفہ تفتیش کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے جمع کیے گئے مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا، تاہم جے آئی ٹی نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو لکھے گئے باہمی تعاون کے معاہدے ( ایم ایل ایز ) عدالت میں پیش نہیں کیے۔

نواز شریف کی صاحبزادی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جلد 10 کے حصول کے لیے اس عدالت نےمیری درخواست مسترد کردی تھی جبکہ ایم ایل ایز کو بطور شہادت میرے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ آپ نے سپریم کورٹ میں لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق جو موقف اپنایا اس پر کیا کہیں گی ؟ اس پر مریم نواز نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں کبھی نہیں کہا کہ میں لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک رہی ہوں۔

سماعت کے دوران پوچھا گیا کہ سوال نمبر 15حسن اور حسین نواز سے متعلق ہے؟ اس پر مریم نواز نے کہا کہ حسن اور حسین نواز اس عدالت میں موجود نہیں ہیں جبکہ طارق شفیع کے بیان حلفی کا مجھے علم نہیں کیونکہ طارق شفیع کو بطور گواہ یا ملزم شامل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کو میرے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا، حسین نواز سے کبھی میری موجودگی میں جے آئی ٹی نے تفتیش نہیں کی۔

عدالت میں موجود مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ بات کہی گئی کہ طارق شفیع اور شہباز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے معاہدے پر دستخط پہچاننے سے انکار کیا، تاہم میری موجودگی میں ان دونوں سے اس بات کا انکار نہیں کیا تھا جبکہ دونوں لوگ اس کیس میں نہ ہی گواہ ہیں اور نہ ہی نامزد ملزم ہیں۔

حدیبیہ پیپرز ملز پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حدیبیہ پیپر کے قرض سے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم نہیں، شئیرز کی منتقلی اور ڈائریکٹر بنانے کا اختیار میرے داد میاں شریف کا تھا اور کاروباری معاملات دادا خود چلاتے تھے۔

انہوں نے گلف اسٹیل مل کے قیام سے متعلق سوال پر کہا کہ سال 1974میں جب گلف اسٹیل مل لگی میں ایک سال کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان کو شامل کرنا نامناسب تھا‘

دوران سماعت مریم نواز کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے سامنے دو ٹوک موقف اپنایا تھا کہ لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک نہیں، میرے والد کی تقریر اور قوم سے خطاب حسین نواز کی طرف سے دی گئی معلومات پر مبنی تھا، میرے والد کا ذاتی طور پر ٹرانزیکشن ، دبئی فیکٹری کی فروخت کے معاہدے اور دیگر معاملات سے تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر یا اپنے خطاب میں نہیں کہا کہ وہ لندن فلیٹس کے مالک یا بینیفشل مالک رہے ہوں، میرے والد کا ہمیشہ موقف رہا کہ وہ نیلسن اور نیسکول کے بیئرر شئیرز ہولڈر نہیں رہے، استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔

بعد ازاں مریم نواز نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات میں سے 47 کا جواب دے دیا، جس کے بعد سماعت جمعہ تک ملتوی کردی گئی، جہاں مریم نواز سوالات کے جوابات دینا جاری رکھیں گی۔

خیال رہے کہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات کے جوابات مکمل کیے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں