لکھاری شاعر اور تجزیہ نگار ہیں۔
لکھاری شاعر اور تجزیہ نگار ہیں۔

یہ انتخابات کا موسم ہے اور سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپ کسی بھی حد تک جائیں گے، کوئی بھی حربہ استعمال کریں گے تاکہ ان کے مخالفین بُرے نظر آئیں، اور وہ خود بدترین نظر آنے سے بچ جائیں۔

مگر اپنی خراب کارکردگی کے لیے دوسروں کو الزام دینا جذباتی سطح پر متاثر کن نہیں ہے، اس لیے یہ تنگ نظری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ملک کے پاس اپنے مالی وسائل کی ترقی اور انتظام و انصرام کے بارے میں دکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے، تو ہمارے لیے یہ بہت آسان ہے کہ ہم اپنے ازلی دشمن، شیطان صفت ملک کو ہمارا پانی ’روکنے‘ کا الزام دیں۔ دوسری جانب جب ہمارے ملک میں سیلاب آتا ہے تو کبھی بھی اس میں ہمارے پیشگی خبردار کرنے والے نظام کی، ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کی یا گلیشیئرز کو تیزی سے پگھلانے والے ماحولیاتی جرائم کی غلطی نہیں ہوتی، بلکہ سیلاب بھی ہمارے ازلی دشمن، دریائی نظام میں ہم سے اوپر موجود ملک کی غلطی ہوتی ہے۔ چوں کہ ہمارا 'بزدل دشمن' ہمارے 'تزویراتی اثاثوں' کے خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے اس لیے وہ اضافی پانی ہم پر چھوڑ دیتا ہے۔

یہی پریشان کن نظریہ ملک کے آبی نظام میں ہمارے زیریں صوبے ہمارے بالائی صوبے کے خلاف بھی استعمال کرتے ہیں۔ ہمیشہ تفریح کا باعث بننے والے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نثار کھوڑو نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس کی جس میں وہ پنجاب پر برستے ہوئے الزام عائد کرتے رہے کہ وہ 1991ء کے آبی معاہدے کے تحت سندھ کو ملنے والا پانی چوری کر رہا ہے۔ انہوں نے بالائی صوبے کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے طور طریقے نہ بدلے تو سندھ کے کسان اپنے صوبے سے پنجاب جانے والی ٹریفک روک دیں گے اور اسلام آباد میں مظاہرہ بھی کریں گے۔

پڑھیے: آبی مسائل کا ذمہ دار ہندوستان یا خود پاکستان؟

سندھ کے آبپاشی نظام میں بالکل آخرے سرے پر موجود ایک چھوٹے کسان کی حیثیت سے سال کے اس حصے میں سوکھے پڑے کینالوں میں ایک بھی قطرہ آئے تو غنیمت ہے۔ مگر ہم منتخب نمائندوں کو سندھ کے تمام آبی مسائل کا ملبہ پنجاب پر ڈال کر اپنی عقل کی توہین نہیں کرنے دے سکتے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پنجاب نے سندھ کو نظامِ آبپاشی میں اصلاحات کرنے سے کب روکا ہے؟ کیا پنجاب سندھ کے بڑے زمین داروں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنا سیاسی اور انتظامی اثر و رسوخ استعمال کرکے چھوٹے کسانوں کے حصے کا پانی اپنی زمینوں میں استعمال کرلیں؟

سندھ ایریگیشن اینڈ ڈرینیج اتھارٹی (سیڈا) کا قانون 1997ء میں پاس ہوا تھا مگر اب بھی سندھ ایریگیشن ڈپارٹمنٹ سیڈا کے متوازی طور پر موجود ہے۔ 21 سالوں میں صرف 3 ایریا واٹر بورڈ ہی کیوں قائم ہوسکے جبکہ 10 سالوں میں 14 بننے تھے تاکہ آبپاشی کے پانی کو شراکت داری سے استعمال کیا جا سکے؟

کسان تنظیمیں، جنہیں تقسیمی سطح پر پانی کے انتظام و انصرام کے اختیارات دیے جانے تھے، ان کی تعداد 300 سے اوپر کیوں نہیں جاسکی؟ اور یہ تعداد 2009ء سے وہیں کی وہیں کیوں ہے؟ کیا انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نامی وفاقی ادارے نے یا حکومتِ پنجاب نے سندھ کو اپنے آبی وسائل کی ترقی اور بہتر انتظام کرنے کی اجازت نہیں دی؟ ارسا سے ضرور سوال کریں کہ آیا وہ تونسہ اور چشمہ لنک کینال اضافی پانی کی دستیابی کے بغیر بھی چلاتا ہے، مگر سندھ میں پہنچنے والے پانی کی صوبے میں منصفانہ تقسیم کا سوال بھی ضرور اٹھائیں۔

کیا صوبائی انتظامیہ میں کوئی ہمیں یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ سندھ میں کتنے ہزار ایکڑ زمین کو ڈرپ سسٹم کے زیادہ مؤثر آبپاشی نظام پر منتقل کیا گیا ہے جو کہ براہِ راست پودوں کو ان کی جڑوں میں پانی فراہم کرتا ہے، کھاد اور کیڑے مار ادویات کا خرچہ بچاتا ہے اور پیداوار کئی گنا بڑھا دیتا ہے؟

مزید پڑھیے: لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین: ہلاکت کا پیغام بننے والا منصوبہ

یا پھر ہم اب بھی اسی پرانے طریقے پر قائم ہیں کیوں کہ چھوٹے کسان کے پاس آواز نہیں اور بڑا زمیندار جس قدر چاہے اتنا پانی چوری بھی کرسکتا ہے، خصوصی مراعات حاصل کرسکتا ہے اور قرضے بھی معاف کروا سکتا ہے۔

اس سال مارچ میں بلوچستان اسمبلی نے قرارداد منظور کی جس میں سندھ کو اس کے حصے کا پانی چوری کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ بولان نے مہران کے خلاف شکایت کی ہو۔ پی پی پی کی پریس کانفرنس میں بھی کچھ شور تھا کہ جہاں سندھ کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، تو وہیں منگلا ڈیم کا پانی بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

آپ کو وہ کچھ عرصے قبل کا جھگڑا یاد ہے جب وفاقی وزارتِ پانی و بجلی نے ’کے الیکٹرک‘ سے کہا تھا کہ وہ صرف قومی گرڈ سے سستی پن بجلی پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے تھرمل پاور پلانٹس چلائے جو کہ نجکاری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فارغ پڑے تھے۔ اس وقت کیا یہ سندھ کو اس کے حصے کی پن بجلی سے محروم کرنے کی سازش تھی؟

سندھ کا مؤقف جائز ہے کہ ملک کے باقی حصوں کو سمجھنا چاہیے کہ ڈاؤن اسٹریم کوٹری سے نیچے بحرِ ہند میں گرنے والا میٹھا پانی ضائع نہیں ہو رہا۔ یہ ہماری ضرورت ہے تاکہ مینگرووز کے جنگلات کو زندہ رکھا جا سکے، جو سمندر کے آگے بڑھنے کے خلاف ہماری سب سے بہترین ڈھال ہیں۔

جانیے: ماحول دوست مینگرووز سے ہماری دشمنی کیوں؟

لیکن اگر ہم ہر چیز کو سیاہ و سفید کا کھیل بنا دیں تو بہت جلد ہمارے ضلعے پانی پر ہمارے صوبوں سے اور ہمارے شہر ہمارے دیہی علاقوں سے لڑ رہے ہوں گے کہ جہاں کراچی میں پینے کو پانی نہیں، وہاں دیہی لوگ پانی کو زراعت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

سیاستدانوں کو خیال رکھنا چاہیے کہ انتخابات جیتنا اہم ہے مگر عوام کو گمراہ کرکے نہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں