اسلام آباد: حکومت نے 5 سالہ مدت کے اختتام سے محض 2 روز قبل قومی پالیسی برائے تحفظ خوراک کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی اسے قومی سلامتی کے بعد ملک کا دوسرا اہم ترین مسئلہ قرار دے دیا۔

مذکورہ سرکاری پالیسی کا باضابطہ اعلان وفاقی وزیر برائے تحفط خوراک اور تحقیق سکندر حیات بوسن نے کیا، انہوں نے تحفظ خوراک پالیسی کو قومی آبی پالیسی اور بھوک مٹاؤ پروگرام سے منسلک قرار دیا۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کے تحت نہ صرف فصلوں کی بہتری اور پیداوار میں اضافے پر توجہ دی جائے گی بلکہ خوراک کو ضائع ہونے سے روکنے پر بھی توجہ دی جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ضائع ہونے والی خوراک، مجموعی پیداوار کے ایک تہائی حصے کے برابر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 3 میں سے ایک پاکستانی مناسب خوراک سے محروم

اس حوالے سے پانی کے بحران پر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے اسے قومی ناکامی قرار دیا اور اس مسئلے پر صوبوں اور وفاق میں اتفاق رائے نہ ہونے پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پانی کے صحیح استعمال اور نئے آبی ذخائر کی تعمیر کر کے پانی جمع کرنے کی گنجائش میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اتفاق رائے کرانے میں کیوں ناکام ہوگئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

مزید پڑھیں: غذا سب کیلئے

اس کے علاوہ انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے بھی گریز کیا کہ وفاقی کابینہ نے تحفط خوراک کی پالیسی کی منظوری 21 مارچ کے اجلاس میں دی تھی اور اب جبکہ قومی اسمبلی کی مدت میں صرف 2 روز باقی رہ گئے ہیں تو اس کا اعلان کیوں کیا جارہا ہے؟

اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ تحفظ خوراک کی جامع پالیسی بنانے کے لیے اتنا وقت اس لیے لگا کہ اس میں تمام متعلقہ اداروں سے مشاورت جاری تھی۔

پالیسی کے نکات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں 3 کروڑ 72 لاکھ 60 ہزار افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، پاکستان کی قومی پالیسی برائے تحفظ خوراک کا مقصد خوراک کی دستیابی، رسائی اور پائیداری کو بہتر بنانا اور خوراک کی پیداوار میں 4 فیصد کی شرح اوسط سے اضافہ کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پانی کی کمی اورموسمی تبدیلی زرعی زمینوں کو بجر کردیں گی‘

انہوں نے مزید بتایا کہ پالیسی کا بنیادی مقصد زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا اور بہترین غذائیت فراہم کرنے کے لیے مسابقتی، ماحول دوست اور مختلف قسم کی خوراک کا نظام قائم کرنا ہے۔

واضح رہے کہ پالیسی میں پیدوار کی کمی کو پورا کر کے خوراک کی دستیابی کو بہتر بنانے کا عزم کیا گیا ہے، جس کے تحت گھروں میں کچن گارڈننگ کو فروغ اور کسانوں کو نئی اور قیمتی فصلوں کی جانب راغب کیا جائے گا، اس کے ساتھ بہترین بیجوں کی فراہمی اور زرعی قرضوں کی لاگت میں کمی اوراس کے نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جائیں گی۔

مزید پڑھیں: ‘خوراک فراہمی کا نظام عالمی سطح پر بہتر بنانے کی ضرورت‘

پالیسی میں بتایا گیا کہ ملک میں 7 کروڑ 20 لاکھ مویشی ہونے کے باوجود پاکستان خشک دودھ اور دیگر ڈیری مصنوعات درآمد کرتا ہے۔

اس پالیسی کے تحت مقامی نسل کے مویشیوں کی تعداد میں اضافے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے، مویشیوں کی خوراک کا میعار اور اس کی پیداوار بہتر بنائی جائے گی، جبکہ ڈیری فارمنگ، جانوروں کو بیماریوں سے بچانے اور ان کے علاج کی مد میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 30 مئی 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں