پشاور: خیبر پختونخوا کی حکومت نے وفاق کے زیرِ انتظام سابقہ قبائلی علاقے (فاٹا) کو صوبے میں ضم کرنے سے متعلق قانون پر آئینی اور اقتصادی اعتراض اٹھا دیے۔

ریاستی اور سرحدی امور (سیفران) کے چیف سیکریٹری محمد اعظم خان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے فاٹا کے لیے 10 کھرب روپے کے اقتصادی پیکچ کا اعلان کیا جس میں سے 200 ارب روپے پہلے 3 برسوں میں جاری کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ’2019 میں فاٹا، خیبرپختونخوا کا حصہ ہوگا‘

انہوں نے ایک مراسلے میں لکھا کہ وفاقی حکومت نے اعتماد دلایا تھا کہ 10 سال کی مدت میں فراہم کی جانے والی مذکورہ رقم کو صرف فاٹا کے لیے استعمال کیا جائے گا اور رقم کی فراہمی میں تعطل یا تاخیری حربے نہیں برتے جائیں گے۔

سرکاری افسر اطلاعات کے مطابق ‘اقتصادی امور پر کوئی اتفاقِ رائے شامل نہیں ہے، وفاقی حکومت اور صوبے کے مابین فنڈز سے متعلق کوئی شق نہیں ہے، رقم کی فراہمی کے بغیر منتقلی کی باتیں محض کاغذات میں ہیں، تین سالہ منصوبے پر عملدرآمد ممکن نہیں ہوسکتا، اصلاحات کا عمل روبہ عمل نہیں ہو سکتا’۔

محمد اعظم خان نے کہا کہ صوبے اقتصادی معاملات پر متضاد آراء دیتے ہیں تاہم انہوں نے مراسلے میں مطالبہ کیا کہ اسلام آباد کی جانب سے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کا انتظار کیے بغیر تمام دستاویزی معاہدوں میں بہت وقت درکار ہوگا۔

مراسلے میں تحریر کردہ دیگر امور میں آرٹیکل 247 کے تحلیل ہوجانے کا بھی ذکر تھا، چیف سیکریٹری نے کہا کہ صدر کی جانب سے ریگولیشن بنائے جانے کا اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ ریگولیشن کی کوئی قانونی حیثیت برقرار نہیں رہتی۔

مزید پڑھیں: فاٹاکا خیبرپختونخوا میں انضمام: سینیٹ سے 31ویں آئینی ترمیم منظور

انہوں نے خبردار کیا کہ ‘فاٹا کے لیے تجویز کردہ قانون سے ریگولیشن کی قانونی حیثیت زائل ہوجاتی ہے جو انتظامی سطح پر سقم پیدا کرتا ہے’۔

مراسلے میں کہا گیا کہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن (نافذ العمل آرٹیکل 247) کی قانونی حیثیت برقرار نہیں رہے گی اور اس کے تحت لیے جانے والے تمام اقدامات غیر قانونی ہوجائیں گے۔

چیف سیکریٹری نے تجویز دی کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے آرڈیننس کا اعلان قوانین اور فاٹا کے ریگولیشن کو تحفظ فراہم کرے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ ‘قبائلی علاقوں میں تحلیل کردہ آرٹیکل 246 کی وجہ سے کئی سوالات جواب طلب ہیں، وفاقی حکومت کے قانونی ماہرین ایسے رکھنے سے متعلق ٹھوس جواز پیش کریں گے اور ساتھ ہی قبائلی علاقوں کے لیے مخصوص لفظ فراہم کریں’۔

واضح رہے کہ نئی اسکیم کے تحت قبائلی علاقوں کو قبائلی اضلاع قرار دیا ہے۔

یہ پڑھیں: ’فاٹا کا انضمام اسمبلی نے کیا نہیں اس سے کرایا گیا ہے‘

مراسلے میں کہا گیا کہ نظامِ عدل ریگولیشن کی قانونی حیثیت بھی مشکوک ہو جائے جس کے باعث مالاکنڈ ڈویژن میں انتظامی سطح پر خلل پیدا ہوجائے گی۔

اس حوالے سے تجویز پیش کی گئی کہ صوبائی حکومت ایک آرڈیننس کا اعلان کرے جو لیویز کی ذمہ داری اور ریگولیشن کے لیے قانونی حیثیت بحال کر سکے۔

پشاور سے ذرائع نے تصدیق کی کہ اسلام آباد میں وزیر سیفران اور وزیراعظم کے سابق معاون بیریسٹر ظفراللہ خان کے درمیان ان امور پر بات چیت ہو چکی ہے۔

دوسری جانب چیف سیکریٹری نے امید ظاہر کی ہے کہ وقت کے ساتھ ہی مسائل پر قابو پایا جائے گا تاہم فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی ترقی، انتظامی افرادی قوت کی تقریری، سیکیورٹی اور جوڈیشل نظام کی ضرورت ہے۔


یہ خبر 2 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں