اردن کے دارالحکومت عمان میں حکومت کی معاشی پالیسیوں، مہنگائی اور ٹیکس بل کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور کئی دنوں سے سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں نے ریاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین کی جانب سے کابینہ دفتر کے قریب احتجاج کیا گیا، اس دوران مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھارکھے تھے، جن پر اردن کے وزیر اعظم ہانی الملکی کی برطرفی کے نعرے درج تھے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے پارلیمان میں بھیجے گئے ٹیکس بل کی واپسی تک احتجاج جاری رکھیں گے، کیونکہ اس بل سے عوام کا معیار زندگی بری طرح متاثر ہوگا۔

احتجاج کرنے والے مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’ یہ حکومت شرمناک ہے اور ہم تب تک یہاں موجود رہیں گے جب تک حکومت بل کو واپس نہیں لے لیتی، ہمارا مطالبہ جائز ہے اور ہم کرپشن کی اجازت نہیں دیں گے‘۔

مزید پڑھیں: اردن میں اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ

انہوں نے اردن کی متحد طاقت سمجھے جانے والے شاہ عبداللہ دوئم پر زور دیا کہ وہ ایسے حکام کے خلاف کارروائی کریں۔

خیال رہے کہ سیکیورٹی حصار کے باوجود 3 ہزار کے قریب لوگ وزیر اعطم ہاؤس کے قریب جمع ہو کر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، مظاہرین نے ہاتھوں میں اردن کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے اور وہ ’ ہم نہیں جھکیں گے‘ کی صدائیں بلند کر رہے ہیں۔

اتوار سے شروع ہونے والے احتجاج کا دائردہ پورے ملک تک پھیل گیا ہےاور عمان کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی شہری حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس بارے میں مظاہرہ کرنے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’ خواتین نے اپنے بچوں کا کھانا تلاش کرنے کے لیے کچرے کی ٹوکری میں دیکھنا شروع کردیا ہے، ہر روز قیمتوں میں اضافہ ہورہا اور نئے ٹٰیکسز لگائے جارہے ہیں۔

اقتصادی اصلاحات

دوسری جانب اردن کی سرکاری نیوز ایجنسی پیٹرا کے مطابق ’ مظاہروں کے بعد سینیٹ نے اس معاملے پر اجلاس طلب کیا اور تمام جماعتوں کے مفادات میں اس مسودہ قانون سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا گیا‘۔

اس بارے میں سینیٹ کے اسپیکر فیصل الفیاض کا کہنا تھا کہ قانون کے معاملے پر ’ جامع قومی مذاکرات ُ کی ضرورت ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ مختلف سماجی شعبوں کے مفاد کے ساتھ اقتصادی چیلنجز اور دباؤ کا توازن برقرار رکھے‘۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اردن حکومت کی جانب سے انکم ٹیکس قانون پر مسودہ تیار کیا گیا تھا جو ابھی تک پارلیمان سے منظور نہیں ہوا، تاہم اس قانون کا مقصد ملازمین پر 5 فیصد جبکہ کمپنیز پر 20 سے 40 فیصد کے درمیان ٹیکس بڑھانا تھا۔

حکومت کی جانب سے مسلسل اقتصادی اصلاحات میں یہ حالیہ اقدام ہے کیونکہ 2016 میں عمان نے 3 سال کی کریڈٹ لائن پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) سے 72 کروڑ 30 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے۔

اس کے بعد جنوری سے اردن میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری میں اضافہ ہوا تھا اور روز مرہ کی اشیاء جیسے ڈبل روٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا اور بنیادی اشیاء پر اضافی ٹیکسز لگائے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اردن: توہین مذہب کا ملزم عدالت کے باہر قتل

اسی طرح سال کے آغاز سے 5 مرتبہ ایندھن کی قیمتیں بڑھائی گئی تھیں جبکہ بجلی کے بلوں میں بھی 55 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی رقوم کے بعد اردن حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے باعث ہونے والا احتجاج 5 برسوں میں سب سے بڑا معاشی احتجاج ہے۔

وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کیے جانے کا امکان

ادھر حکومت کی معاشی پالیسوں کے خلاف جاری احتجاج کے بعد یہ متوقع ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ وزیر اعظم ہانی الملکی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے کہنے پر قیمتوں میں اضافے کے بعد ہونے والے احتجاج میں مظاہرین وزیر اعظم کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ شاہ عبداللہ کی جانب سے وزیر اعظم ہانی الملکی کو پیر کو اپنے محل طلب کیا گیا ۔

علاوہ ازیں اردن کے سیاسی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ اس معاملے پر اطمینان مقامی بحران کا خطرہ پیدا کرسکتا ہے۔

تجزیہ کار عدیل محمود کا کہنا تھا کہ اس تحریک نے حکومت کو حیران کردیا ہے ،امکان ہے کہ مظاہرین اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں