طالبان نے ہزاروں افغان علماء کی جانب سے ملک میں جاری جنگ کے خلاف دیئے جانے والے فتوے کو مسترد کردیا جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے فتوے کی حمایت کردی۔

خاما پریس کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک جاری بیان میں کہا کہ فتویٰ غیر ملکیوں کی تجاویز پر جاری کیا گیا جس کا مقصد ان کے گروپ پر دباؤ ڈالنا ہے۔

انہوں نے جنرل جان نیکلسن کے حالیہ بیان کو اپنے دعوے کی تصدیق کے طور پر پیش کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہر قسم کا طریقہ کار استعمال کریں گے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ نیٹو کمانڈر، گروپ پر عسکری، سیاسی، سماجی اور مذہبی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کابل: افغان علماء کے اجتماع پر خودکش حملہ، 7 جاں بحق

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ غیر ملکی فورسز مذہبی اجتماعات کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور فتوے کا مقصد طالبان کی جاری لڑائی کو غیر مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرنا ہے۔

دوسری جانب طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے افغان علماء کے فتوے کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ دہراتے ہیں کہ طالبان تشدد ترک کر کے امن کی کوششوں کا ساتھ دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت، علماء کی جانب سے دیئے گئے فتوے کی مکمل حمایت کرے گی۔

اپنے ویڈیو پیغام میں صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ ’ملک کی حالیہ صورت حال میں رمضان کے ماہ مبارک میں ہمارے قابل احترام علماء نے بہت اچھا اقدام اٹھایا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ میں حکومت اور ملک کے عوام کی جانب سے ان کا شکر گزار ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت سے مذاکرات پر مبنی امریکی بیان میں کوئی صداقت نہیں، طالبان

علاوہ ازیں صدر اشرف غنی نے تمام حکومتی ایجنسیز کو ہدایت کی کہ وہ علماء کی جانب سے پیش کی گئیں تجاویز پر مستقبل میں عمل درآمد کے لیے ایکشن پلان ترتیب دیں۔

اس کے علاوہ اشرف غنی نے طالبان کی جانب سے علماء پر کیے جانے والے حملے کی مزمت کی اور ایک مرتبہ پھر طالبان کو قومی دھارے میں آنے کی دعوت دی۔

افغان علماء کا فتویٰ

خیال رہے کہ طالبان ترجمان اور اشرف غنی کے بیانات گزشتہ روز افغان علماء کی جانب سے دیئے گئے اس فتوے کا رد عمل ہیں جس میں علماء نے افغانستان میں جاری شورش اور لڑائی کو غیر اسلامی اور شریعت کے منافی قرار دیا تھا۔

علماء کے فتوے میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں کسی بھی طرح کی جنگ غیر اسلامی عمل ہے اور یہ مسلمانوں کے قتلِ عام کے سوا کچھ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں خودکش حملے ہوتے رہتے ہیں جن میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، جن کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی جاتی ہے لیکن عسکریت پسندوں کا ماننا ہے کہ خودکش حملے ان کے لیے ایک موثر ہتھیار ہیں۔

مزید پڑھیں: روس نے ’طالبان کی مدد‘ کے امریکی الزامات مسترد کردیئے

افغانستان کے علماء نے فتویٰ دیا کہ خودکش حملے معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے لیے بم دھماکے، عسکریت پسندی، کرپشن، چوری، اغوا سمیت کسی بھی طرح کی ہنگامہ آرائی اسلام میں گناہ کبیرہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے منافی ہے۔

علمائے کرام کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمانوں کا قتلِ عام حرام ہے اور یہ ایک غیر قانونی عمل بھی ہے۔

دریں اثنا افغانستان کے علماء نے ایک مرتبہ پھر طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک میں امن کے لیے حکومت کی غیر مشروط پیشکش کو قبول کر لیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ افغانستان میں مزید قتل عام کو روکنے کے لیے طالبان حکومتی پیشکش کا مثبت جواب دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں