سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں زیرسماعت اصغر خان کیس میں اپنا جواب جمع کرا دیا، جس میں انہوں نے 1990 کی انتخابی مہم کے لیے 35 لاکھ روپے لینے کے الزام کو رد کردیا ہے۔

نواز شریف نے سپریم کورٹ میں جمع کردہ اپنے جواب میں کہا کہ میں نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی سے 35 لاکھ کی رقم نہیں لی۔

انھوں نے کہا ہے کہ1990 کی انتخابی مہم کے لیے اسد درانی یا ان کے کسی نمائندے سے کوئی رقم نہیں لی اور نہ ہی کبھی یونس حبیب سے 35 لاکھ یا 25 لاکھ روپے وصول کیے۔

نواز شریف نے کہا کہ ان الزامات سے متعلق 14 اکتوبر 2015 کو اپنا بیان ایف آئی اے کو ریکارڈ کروا چکا ہوں۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں کو 6 جون کو عدالت میں پیش ہو کر اپنا جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں:نواز شریف کی عدم پیشی پر اصغر خان کیس کی سماعت ملتوی

بعدازاں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سابق وزیراعظم نواز شریف کواپنے وکیل کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 12 جون تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی جماعت پر عائد الزامات کے حوالے سے اپنا بیان حلفی جمع کرادیا۔

سراج الحق نے بھی 1990 کے انتخابی مہم کے لیے آئی ایس آئی سے رقم لینے کے الزام کو مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے بیان حلفی میں کہا کہ جماعت اسلامی 2007 میں رضاکارانہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ بنی،ہم نے آئی ایس آئی سے کوئی رقم وصول نہیں کی، ہم کسی بھی فورم یا کمیشن میں جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

اصغر خان کیس میں اب تک کیا ہوا!

سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996 میں دائر ہوا، مقدمے کی رو سے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 کے انتخابات کے لیے الیکشن سیل بنایا گیا، جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی شامل تھے۔

مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے، جس سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف کی رو گردانی کی گئی۔

بعد ازاں 16 سال بعد عدالت نے 2012 میں مذکورہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائر جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی اور مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔

یہ پڑھیں: وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایوان صدر میں کوئی سیل ہے تو فوری بند کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کیس میں کافی ثبوث جمع کیے گئے، لہٰذا ایف آئی اے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کے لیے مقدمات کی تیاری کرے۔

جس کے بعد سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ، ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے۔

اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013 کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔

اپنی تحقیقات کے دوران 2015 تک ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ایئر مارشل (ر) اصغر خان، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی، مہران بینک کے مالک یونس حبیب، ایڈووکیٹ یوسف میمن اور معروف صحافی الطاف حسین قریشی کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس ضمن میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جو رواں سال 6 مئی کومسترد کر دی گئیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے 3 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ عدالت نے 6 سال قبل فیصلہ دیا تھا، اب تک فیصلے پر کیا عملدرآمد ہوا ہے؟

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ اس کیس میں نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جاچکی ہیں اور اب عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہونا چاہیے، چناچہ ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔

اس حوالے سے 10 مئی کو ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے بتایا تھا کہ یہ کمیٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کی سربراہی میں قائم کی گئی اور اسے ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے۔

تبصرے (0) بند ہیں