سینٹرل بینک اور تاجروں کے مطابق پاکستانی کرنسی 7 ماہ میں تیسری مرتبہ 3.8 فیصد کم ہوئی جو بعد میں بتدریج بحالی کی طرف بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔

عید الفطر سے قبل اور عام انتخابات کے قریب آتے ہی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے صارفین کے خدشات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔

روپے کی قدر میں گراوٹ ملک کی 3 سو ارب ڈالر کی معیشت میں تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زر مبادلہ اور مالی خسارے میں اضافہ ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے 2013 کے بعد دوسری مرتبہ انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنا پڑسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 117 روپے تک پہنچ گئی

نامور اکانومسٹ اشفاق احمد خان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کے پاس الیکشن کی باگ ڈور سنبھالنے کی ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے انہیں آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت کو در آمدات کو کم کرنے اور بر آمدات کو بڑھانے کے لیے پالیسی فیصلے کرنا ہوں گے تاہم نگراں حکومت نے اب تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے خصوصی طور پر روپے کی قدر میں گراوٹ پر انحصار کریں گے تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی نئی ایمنسٹی اسکیم پر کاروباری برادری میں ملا جلا رد عمل

خیال رہے کہ دسمبر کے مہینے سے اب تک روپے کی قدر میں 14 فیصد کمی آئی ہے۔

تاجروں کے مطابق پیر کے روز روپے کی قدر کا آغاز 115.63 روپے سے ہوا جس کا اختتام 119.85 روپے پر ہوا جبکہ درمیان میں اس کی قیمت 121 روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان کی معیشت میں رواں سال شرح نمو کا حدف 6 فیصد رکھا گیا ہے جو اس دہائی میں سب سے تیزی سے بڑھنے کی شرح ہے تاہم بڑھتے ہوئے خسارے نے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کے مطابق پاکستان کا موجودہ مالی خسارہ 14 ارب ڈالر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں