کسی بھی حلقے سے انتخابی معرکہ آسانی سے جیت جانے والے کو ماضی قریب میں نیا خطاب الیکٹیبل (Electable) عطا ہوا ہے۔ عمران خان نے پنجاب اور آصف علی زرداری نے سندھ میں خاص طور پر دیگر جماعتوں کے الیکٹیبلز کو دھڑا دھڑ اپنی اپنی جماعت میں شامل کیا تاہم دونوں رہنماؤں کو شاید اس امر کا احساس ہی نہیں تھا کہ ان کی اپنی جماعت میں ٹکٹ حاصل کرنے کی غرض سے پہلے ہی ان گنت خیمہ زن موجود ہیں۔ مزید براں یہ کہ اگرچہ وطنِ عزیز میں امیر خاندانوں کی طرح سیاسی خاندان بھی گنے چنے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان خاندانوں کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے والوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں بڑھ چکی ہے۔

الیکٹیبلز کی شمولیت کو سیاسی کامیابی گردانتے ہوئے جتنے شادیانے بجائے گئے، ٹکٹوں کی تقسیم سے ناراض کارکنوں کی چیخ و پکار کی وجہ سے وہ خوشیاں اب کافور ہوچکی ہیں۔ لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو اندازہ نہیں تھا کہ سیکڑوں حلقوں کے لیے ہزاروں خواہشمند جمع کرنے کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔

اس تناظر میں پاکستان پیپلزپارٹی کو، بالخصوص صوبہءِ سندھ کے اندر، جس مشکل صورتحال کا سامنا ہو رہا ہے اس کو سمجھانے کی غرض سے اگر مٹیاری کے مخدوم اور گھوٹکی کے مہر خاندان کی ہی مثالیں پیش کی جائیں تو ساری صورتحال واضح ہوجائے گی۔

مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ کا شمار ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوست اور پیپلزپارٹی کے بانی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ مخدوم طالب المولیٰ کی زندگی میں ہی ان کے بیٹے مخدوم امین فہیم، مخدوم خلیق الزماں، مخدوم رفیق الزماں اور دیگر بھی انتخابات میں حصہ لینے لگے۔ مخدوم امین فہیم کی وفات کے بعد لاکھوں مریدین کے روحانی مینڈیٹ کے ساتھ مخدوم جمیل الزماں کو اپنے چچاؤں، بھائیوں، چچا زاد بھائیوں اور بھتیجوں کی سیاسی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے تگ و دو کرنی پڑ رہی ہے۔

پڑھیے: انتخابات 2018: پیپلز پارٹی نے سندھ سے امیدواروں کا اعلان کردیا

سندھی اخبارات ایسی سرخیاں لگاتے رہے ہیں کہ ’سندھ صوبے کی سابقہ حکومتوں کے دوران اپنے لیے من پسند وزارت اور خاندان کے دیگر افراد کے لیے مقتدر ایوانوں کی ٹکٹیں نہ ملنے کی وجہ سے مخدوم جمیل پارٹی قیادت سے نالاں ہیں۔‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابی شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد ایسی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ مخدوم جمیل الزمان نے پیپلزپارٹی سے راہیں جدا اور پیر پگاڑا کی قیادت میں سرگرم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

لیکن ’سب پر بھاری‘ نے بالآخر مخدوم جمیل کے ساتھ مذاکرات کیے اور ضلع مٹیاری کے تمام حلقوں کے امیدواران کے حوالے سے مخدوم جمیل کا فیصلہ حتمی ہونے کی تائید کردی ہے۔ جس کی وجہ سے مخدوم خاندان تو راضی ہوگیا ہے لیکن دیگر جماعتوں کے جو لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تھے وہ پھر سے ناراض ہوگئے ہیں۔

ایسی ہی صورتحال ضلع گھوٹکی میں بھی سامنے آئی ہے۔ غلام محمد خان کو سندھ میں رہنے والے مہر قبیلے کا چیف سردار کہا جاتا تھا، وہ ضلع گھوٹکی کے طاقتور سیاستدان رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے سردار علی گوہر مہر سیاسی افق پر نمودار ہوئے۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں خود ضلع گھوٹکی کے ناظم بنے اور چھوٹے بھائی علی محمد مہر کو صوبے کا وزیراعلیٰ جبکہ سب سے چھوٹے بھائی علی نواز عرف راجہ مہر کو رکن قومی اسمبلی اور صنعت و پیداوار کا مملکتی وزیر بنوایا۔

2008ء کے انتخابات سے قبل پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر سردار علی گوہر اور علی محمد رکن قومی اسمبلی، جبکہ علی نواز مہر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ اسی اثنا میں مرحوم چیف سردار غلام محمد مہر کے بیٹے سردار محمد بخش مہر بھی انتخابات میں حصہ لینے کے قابل ہوچکے تھے تو سردار علی گوہر نے ان کے لیے بھی پیپلزپارٹی سے ٹکٹ حاصل کرلیا، یوں ایک ہی خاندان کے 2 افراد قومی اور 2 افراد صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہوئے، جبکہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں سردار علی گوہر مہر نے اپنے بیٹے حاجی خان مہر کو چیئرمین ضلع کونسل اور علی محمد مہر کے بیٹے کو تحصیل کونسل کا چیئرمین بھی بنوادیا۔

پڑھیے: تحریک انصاف نے انتخابی امیدواروں کا اعلان کردیا

یہ وہی وقت تھا جب 2003ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد پیپلزپارٹی (پیٹریاٹ) میں شامل ہونے والے لونڈ قبیلے کے سردار اور ضلع گھوٹکی کی ایک اور طاقتور سیاسی شخصیت سردار خالد احمد خان بھی بلاول بھٹو زرداری کی پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ شامل تو وہ تنہا ہوئے لیکن ان کے ساتھ بھی بھائی، بھتیجوں اور دیگر رشتہ داروں کا قافلہ تھا جو اب ٹکٹیں مانگتا ہے۔

خالد لونڈ کی شمولیت کی وجہ سے مہر خاندان اور پیپلزپارٹی قیادت کے درمیان مختلف مواقعوں پر سیاسی دوریاں بڑھنے لگیں۔ جب عام انتخابات 2018ء کے انعقاد کا اعلان ہوا تو مہر خاندان نے ضلع گھوٹکی کی لگ بھگ تمام قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے لیے ٹکٹیں مانگیں۔ شنید ہے کہ سابق صوبائی وزیرِ کھیل سردار محمد بخش مہر کا چھوٹا بھائی سردار بنگل خان مہر بھی اس دفعہ انتخابات میں حصہ لینا چاہ رہا تھا۔ ایسی صورتحال کی وجہ سے مہر خاندان اندرونی اختلافات کا بھی شکار ہوچکا ہے۔ سردار علی گوہر مہر پہلی مرتبہ سیاسی تنہائی کا شکار ہوکر آزاد امیدوار کی حیثیت میں نامزدگی فارم جمع کرواچکے ہیں، جبکہ ان کے بھائی اور دیگر رشتہ دار پیپلزپارٹی کے ٹکٹوں پر ان کا اور ان کے حامی امیدواروں کا مقابلہ کریں گے۔

سیاسی خاندانوں کے الیکٹیبلز میں اضافے کی بات چلی ہے تو سکھر کے سید خورشید احمد شاہ کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ کارکن کی حیثیت سے پیپلزپارٹی سے جڑنے والے سید خورشید شاہ پیپلزپارٹی کے سدابہار رہنما ہیں۔ نئی صدی کی ابتداء تک اپنے خاندان کے وہ واحد فرد تھے جو الیکٹیبل تھے لیکن 2003ء کے انتخابات میں ان کے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصراللہ بلوچ، شاہ جی کی مہربانی سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008ء میں خورشید احمد شاہ نے اپنے داماد اور بھتیجے اویس قادر شاہ کو رکن صوبائی اسمبلی بنوایا۔ 2018ء کے انتخابات کے لیے سید خورشید نے بھتیجے کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے سید فرخ شاہ کے لیے بھی صوبائی اسمبلی کے حلقے کا ٹکٹ لے لیا ہے۔

پڑھیے: تحریک انصاف کا کچھ حلقوں میں امیدوار تبدیل کرنے کا فیصلہ

خیرپور میں منظور وسان اور قائم علی شاہ جیلانی کے خاندانوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر چپقلش پیدا نہ ہو، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ سندھ میں سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ تبصرہ بہت مقبول ہوا ہے کہ ’پہلی مرتبہ کوئی بھی بھٹو پاکستان پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ نہیں لے گا کیونکہ سارے کا سارا زرداری خاندان بشمول آصف زرداری، ان کے بیٹے بلاول زرداری، آصفہ زرداری، فریال تالپور، ان کے شوہر میر منور تالپور، آصف زرداری کی دوسری بہن ڈاکٹر عذرا فضل بلا شرکت غیرے ٹکٹوں کے دھنی بن چکے ہیں۔‘ شاید یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے کزن شاہد بھٹو ناراض ہوکر تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے اور پھر اس امید کے ساتھ ان کو پیپلزپارٹی میں واپس لایا گیا کہ بلاول بھٹو 2 حلقے جیت کر ایک شاہد بھٹو کے حوالے کریں گے۔

طاقتور خاندانوں میں جواں سال افراد کی تعداد جب جب بڑھتی ہے سیاسی پارٹیوں کے لیے انتخابات کے دنوں میں ٹکٹیں دینے کا کام اتنا ہی پیچیدہ ہوتا جاتا ہے کیونکہ ٹکٹوں کی چادر محدود اور ٹکٹ کے خواہشمندوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

حیدرآباد سے شائع ہونے والے سندھی اخبار کاوش نے اپنی 12 جون کی اشاعت میں ایک تفصیلی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹکٹیں نہ ملنے کی وجہ سے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے کئی رہنماؤں نے پارٹی سے راہیں جدا کرنے اور آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

بشکریہ کاوش اخبار
بشکریہ کاوش اخبار

اس خبر کے مطابق ’ٹنڈو آدم کے جونیجو خاندان، کوٹری کے سکندر شورو، نوشہرو فیروز کے سابق ایم پی ایز عبدالستار راجپر، عبدالحق بھرٹ، کشمور کندھکوٹ کے غلام محمد شہلیانی، بدین کے سابق ایم این اے کمال چانگ، دادو کے مہیسر خاندان، سکھر کے حاجی انور مہر، ضلعی صدر جاوید شاہ اور دیگر کئی اہم شخصیات نے پارٹی کے فیصلوں کو قبول نہیں کیا ہے۔‘

ایسا نہیں کہ اس قسم کی صورتحال کا سامنا صرف پاکستان پیپلزپارٹی کو سندھ صوبے کے اندر کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر تحریکِ انصاف، پاکستان ملسم لیگ (ن) کے اندر اور ایم کیو ایم کے دھڑوں کے درمیان بھی کھینچا تانی جاری ہے۔ تجزیہ کار و سینئر صحافی ناز سہتو نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ’ٹکٹوں کی تقسیم کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے اندر جو اختلافات پیدا ہوئے ہیں ان کا اثر انتخابات کے نتائج پر بھی پڑسکتا ہے اور الیکٹیبلز سے جڑی امیدیں ممکنہ طور پر پوری نہ ہو پائیں۔‘

تبصرے (0) بند ہیں