اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بحیثیت سربراہ وہ اپنے ادارے کو بہتر طور پر چلانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں کھلے عام اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے ادارے کو بہتر نہیں بنا سکا‘، انہوں نے یہ بات سپریم کورٹ میں چار رکنی بینچ کی سربراہی میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران کہی۔

مذکورہ درخواست، ماتحت عدالت میں مقدمات، درخواستوں اور اپیلوں کی سنوائی کے حوالے سے وقت مقرر کرنے اور اس ضمن میں نئے اصول و ضوابط قائم کرنے کے لیے دائر کی گئی تھی۔

یہ درخواست عمیر اعجاز گیلانی، عطاءاللہ حکیم کنڈی، محمد حیدر امتیاز، راحیل احمد اور ہادیہ عزیز کی جانب سے دائر کی گئی، تمام درخواست گزاروں کا تعلق شعبہ قانون و انصاف سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے سیشن جج کا فون میز پر پٹخ دیا

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے اپنے حالیہ دورہ لاڑکانہ کا بھی حوالہ دیا جس کے نتیجے میں ایڈشنل ڈسٹرک اینڈ سیشن جج گل ضمیر سولنگی نے اپنا استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس حوالے سے چیف جسٹس نے بتایا کہ ڈسٹرک جج نے پورے دن کے دوران میں ضمانت کی صرف 2 درخواستوں پر فیصلہ سنایا تھا۔

اس دوران سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جمع کیے گئے اب تک کے اعداد و شما ر کے مطابق چاروں صوبوں کی عدالتوں میں درخواستوں اپیلوں اور نظر ثانی کی درخواستوں سمیت 38 ہزار 2 سو 5 مقدمات زیر التوا ہیں تاہم اس ضمن میں حتمی اعداد و شمار اکھٹا کر کے جلد عدالت میں پیش کردیے جائیں گے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے مذکورہ معاملے کی سنوائی کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا بھی عندیہ دیا۔

مزید پڑھیں: لاڑکانہ جج کا گردش کرنے والا استعفیٰ جعلی ہے، سندھ ہائی کورٹ

دوسری جانب کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) کی جانب سے ایڈشنل؛ ڈسٹرک اور سیشن جج گل ضمیر سولنگی کی جانب سے استعفیٰ دیے جانے کے فیصلے پر تاسف کا اظہار کیا گیا۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس کے دورے کے دوران جج ضمیر سولنگی عدالت میں موجود ہونے کے باوجو دوران سماعت موبائل فون استعمال کرتے رہے اور اس حوالے سے پوچھے گئے سوال پر قابلِ اطمینان جواب نہیں دے سکے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا فون میز پر پھینک دیا تھا۔

مذکورہ واقع کے ایک دن بعد مذکورہ جج کے مبینہ استعفیٰ کی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی، جسے سندھ ہائی کورٹ کے میڈیا کووآرڈینیٹر نے جعلی قرار دیا تھا۔

اس ضمن میں گزشتہ روز کراچی بار ایسو سی ایشن کی جانب سے ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن نے ہمیشہ انصاف کی فراہمی میں بہتری اور عدلیہ کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کے ادارے چاہتے ہیں کہ لوگ مرتے رہیں، سپریم کورٹ

قرار داد میں ایڈشنل جج گل ضمیر سولنگی کی جانب سے دیے گئے استعفیٰ پر مایوسی کا اظہار کیا گیا جو مبینہ طور پر چیف جسٹس کے ہاتھوں کھلے عام ان کی بے عزتی کیے جانے پر سامنے آیا۔

قرار داد میں بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اور صدر کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس کی جانب سے ماتحت عدلیہ کا جائزہ لینے کے اقدام کو سراہتے ہیں، جسے بہتری کی اشد ضرورت ہے، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ٹیلی ویژن پر لائیو ہوتے ہوئے اس قسم کی حرکت کرنے سے میڈیا ریٹنگ بہتر ہوگی لیکن عدالتی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلعی عدالتوں کی کارکردگی میں پائیدار بہتری صرف بنیادی ڈھانچے پر توجہ دینے، طریقہ کار اور انسانی وسائل کے استعمال کے معاملات کو بہتر کر کے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: آبی قلت کا معاملہ: ہم رہیں نہ رہیں ڈیم ضرور بنے گا، چیف جسٹس

انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کارروائی کا معائنہ خاموشی سے بغیر بتائے عدالت میں داخل ہوکر کیا جانا چاہیے اور سماعت کا جائزہ لے کر کسی غلط چیز کی نشاندہی متعلقہ حکام کو کی جانی چاہیے جو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔

قرارداد میں چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعا کی گئی کہ فوری طور پر فل کورٹ اجلاس بلایا جائے جس میں ایسی افسوسناک صوررتحال کے منفی رد عمل کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائے اور تمام ججز حضرات کو اس بات کی ضمانت دی جائے کہ وہ آزادانہ طریقے سے مقدمے کی سماعت کرسکتے ہیں، تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔


یہ خبر 29 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

Abdul Hameed Jun 29, 2018 04:11pm
I would like to draw your attention that HC Sindh Hyderabad had passed orders to fix barriers on both side railways road bridge Kotri in the year 2009 since then no public transport (the buses/coaster)are available at Thata-Hyderabad Road people of area are badly affected with that orders and court is not hearing petition since long time.CJP is requested to take SUO Moto notice on this public importance issue.