اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال کی جانب سے چھٹی مردم شماری کے نتائج کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرلی تاہم اس پر سماعت کا آغاز الیکشن کے بعد ہوگا۔

واضح رہے کہ رجسٹرار آفس نے 30 اپریل کو پی ایس پی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال کی پٹیشن پر اعتراضات لگا کر اسے مسترد کردیا تھا، جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا جہاں عدالت عظمیٰ نے پٹیشن سماعت کے لیے منظور کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: مردم شماری میں اور کیا کیا شمار ہونا چاہیئے تھا

گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں معاملے کا جائزہ لیا اور رجسٹرار کی جانب سے لگائے گئے تمام اعتراض رد کرتے ہوئے الیکشن 2018 کے بعد سماعت کا فیصلہ کیا۔

اپنی پٹیشن میں انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے موقف اختیار کیا کہ وہ نادرا کے تازہ اعداد و شمار کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشست کا تعین کریں۔

دائر پٹیشن میں استدعا کی گئی کہ عدالت عظمیٰ کراچی کو 1998 کی مردم شماری کے تناظر میں دیکھے اور 6 اضلاع کو ’ون یونٹ‘ بنانے کا اعلان کرے اور قومی وصوبائی اسمبلی کی دوبارہ حلقہ بندیاں کی جائیں۔

انہوں نے پٹیشن میں دعویٰ کیا کہ ’مردم شماری (2017) میں کراچی کی 21 قومی اسمبلی کی نشستوں پر آبادی 1 کروڑ 60 لاکھ بتائی گئی ہے، جس میں 52 لاکھ آبادی کم دیکھائی گئی ہے‘۔

مزید پڑھیں: مردم شماری کے عبوری نتائج جاری، آبادی20 کروڑسے متجاوز

پٹیشن میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور مردم شماری نتائج میں 2.4 فیصد سالانہ اضافہ کا حوالہ دیا گیا، جس میں کراچی کی آبادی 2 کروڑ 39 لاکھ بنتی ہے جبکہ نادرا نے شناختی کارڈ نہ رکھنے والے افراد کو شامل نہیں کیا۔

پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ اس اعتبار سے کراچی کی آبادی 2 کروڑ 39 لاکھ سے تجاویز کر چکی ہے۔

پٹیشنر کا کہنا تھا کہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 18 سال کی عمر سے زائد افراد کی تعداد 51 فیصد جبکہ 18 سے کم عمر نفونس 49 فیصد تھے، اگر نتائج درست تصور کیے جائیں تو پاکستان میں صورتحال انتہائی بدتر ہوگی کیونکہ اوسط عمر میں مجموعی طور پر کمی اور شرح پیدائش میں اضافہ ہوا۔

پی ایس پی کے چیئرمین نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ متعلقہ اداروں سے تمام ریکارڈ اور ڈیٹا طلب کیا جائے جس میں پاکستان بیورو، نادرا، مردم شماری کمیشن شامل ہیں اور سندھ کی آبادی، حلقہ بندی اور قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی حدود بندی کا تعین کیا جائے۔

مزید پڑھیں: صوبوں کے مردم شماری نتائج کا نوٹیفکیشن جلد جاری کرنے کا مطالبہ

درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے رولز 8، جنرل شماریاتی (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 2011 کے سیکشن 28 اور مردم شماری آرڈیننس 1959 کو آئین کے دائرہ کار سے باہر قرار دیا جائے۔


یہ خبر 30 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں